نیویارک میں یہ میری پہلی رات تھی اور پہلی رات ہی آزمائش کی گھڑیاں لے کر طلوع ہوئی تھی۔ میرا قیام نیویارک کے علاقے، بروکلین، کی میکڈانلڈ ایونیو پر تھا۔ شام پڑتے ہی ناف کے بائیں جانب درد شروع ہو گیا تھا۔ ابتدائی دو گھنٹے برداشت کرتا رہا۔ پھر میزبان کے کہنے پرسرخ رنگ کی دو گولیاں کھائیں۔ کمر پر ہاتھ رکھے تا دیر بستر پر لیٹا کروٹیں بدلتا رہا لیکن درد تھا کہ مدہم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
نصف شب کے قریب میزبان صاحب میرے کمرے میں آئے اور کہا: ’’برخوردار، یہ پاکستان نہیں ہے کہ گھر بیٹھے بیماری کے عذاب جھیلتے رہو۔ اُٹھو، اور ابھی میرے ساتھ اسپتال چلو۔‘‘ باہر بلا کی سردی تھی۔ جسم کو گرم کپڑوں سے اچھی طرح لپیٹا اور اُن کے ساتھ چل دیا۔ پندرہ منزلہ بلند رہائشی عمارت کی وسیع پارکنگ کے ایک کونے میں اُن کی گاڑی کھڑی تھی۔ جلدی سے ہم اسپتال روانہ ہو گئے۔ دس پندرہ منٹ میں اسپتال آ گیا تھا۔
میرے مہربان میزبان نے ڈیوٹی پر کھڑے ڈاکٹر کو میری کیفیت سے آگاہ کیا تو وہ ایک نرس کے ہمراہ تقریباً بھاگتے ہوئے میری طرف لپکا۔ میں سبز کرسیوں پر کمر کو مضبوطی سے تھامے جھکا ہوا بیٹھا تھا۔ اس دوران دو تین بار قے بھی کر چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اور نرس نے مجھ سے یہ نہ پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ کیا اسپتال کی فیس جمع کروا دی؟ ٹیسٹوں کے لیے جیب میں ڈالر ہیں؟ تم امریکی شہری بھی ہو یا نہیں؟ انھوں نے پوچھا تو یہ پوچھا کہ کب سے درد شروع ہے؟ پہلی بار ہوا ہے یا اس سے پہلے بھی اِسی جگہ پر ہوتا رہا ہے؟
اُلٹیاں اب تک کتنی بار کر چکے ہو؟ میرے جواب پا کر وہ خاموش ہو گئے اور چند لمحوں کے توقف کے بعدآہستہ سے بولے: ’’ینگ مین، ہمارا خیال ہے کہ یہ دردِ گردہ ہے۔ فوری آرام کے لیے ہم ہلکی ڈوز کا انجکشن لگائیں گے اور پھر آبزرویشن کے لیے رات بھر اسپتال میں رکھیں گے۔ اپنے ذہن کومطمئن کر لو۔‘‘ ساتھ ہی دونوں کے لبوں پر ایک دلآویز مسکراہٹ پھیل گئی۔ پھر اُنہوں نے میرے میزبان دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’آپکو رات بھر اسپتال میں رکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ہیں ناں۔ ممکن ہے رات کے کسی پہر آپ کے اس عزیز کا ایکسرے بھی کریں اور الٹرا ساؤنڈ بھی۔ آپ متفکر نہ ہوں اور ابھی گھر چلے جائیں۔‘‘
میرے مہربان دوست مجھے خداحافظ کہہ کر گھر روانہ ہو گئے۔ نیا ملک، اجنبی شہر اور غیر مانوس اسپتال۔ مجھے تو وحشت ہونے لگی لیکن صبر کیے لیٹا رہا۔ تھوڑی دیر بعد وہی مسکراتی ہوئی نرس آئی اور میرا بلڈ پریشر چیک کیا۔ ساتھ ساتھ وہ کاغذات کا پیٹ بھی بھرتی جا رہی تھی۔ پھر ڈاکٹر صاحب آئے اور اُن کے اشارے سے مجھے انجکشن لگا دیا گیا۔ پانچ سات منٹ میں درد سے اینٹھتے ہوئے بدن میں سکون اور اطمینان واپس آنے لگا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ایک اور ہال نما کمرے میں لے جا کر میرا ایکسرے بھی کیا گیا اور الٹرا ساؤنڈ بھی۔ میں دو دن مسلسل اس اسپتال کا مہمان رہا۔ ٹہل سیوا بھی خوب ہوئی۔ مجھے بتایا گیا کہ گُردے میں چند ملی میٹر کی پتھری ہے۔ پانی اور ادویات کا زیادہ استعمال کرو گے تویہ خود بخود بذریعہ پیشاب نکل جائے گی، بصورتِ دیگر سرجری کروانا پڑے گی۔
تین ہفتے بعد میَں امریکا سے واپس لاہور آ گیا۔ ایک روز، جب کہ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، مجھے اپنے باس کے حکم سے ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری کا انٹرویو کرنے کے لیے لوئر مال روڈ سے ماڈل ٹاؤن جانا پڑا۔ رکشے اور ویگن میں باری باری سوار ہو کر وہاں پہنچا۔ ڈاکٹر صاحب نے ابھی ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ کی بنیاد نہیں رکھی تھی لیکن ادارہ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اُن کا نامِ نامی، اسمِ گرامی پورے پاکستان میں باز گشت بن کر گونج رہا تھا۔ انٹرویو آخری فیز میں تھا کہ اچانک میرے بدن کے اُسی جگہ درد کی شدید لہریں اُٹھنا شروع ہو گئیں جہاں سے نیویارک میں درد اُٹھا تھا۔
کچھ دیر تو مَیں تکلیف کے مارے کسمساتا رہا لیکن درد بے لگام ہوتا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے مہربانی فرما کر خمیرہ نما کوئی دوائی مجھے عنائیت تو فرمائی لیکن افاقہ نہ ہوا۔ شام بھی اُتر آئی تھی اور انٹرویو بھی اختتام پذیر تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے اشارے پر ادارہ مذکور کی گاڑی مجھے ایک سرکاری اسپتال ڈراپ کر گئی۔ سردی سے ٹھٹھڑتا اور دردِ گردہ سے کانپتا ہُوا اسپتال کی ایمرجنسی میں داخل ہو گیا۔ وہاں بے پناہ رش تھا۔ شور تھا۔ مریضوں کا ایک اژدہام تھا۔ ہڑبونگ تھی۔ فضا میں ایک ناسمجھ آنے والی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ ایک ایک بستر پر دو دو، تین تین مریض لٹائے گئے تھے۔
پرچی کٹوائی تو مجھے بھی ایک بَیڈ پر دراز ہونے کا حکم ملا، جہاں پہلے ہی ایک شخص پہلو کے بَل لیٹا ہوا تھا۔ دل تو نہ چاہا لیکن جبر نے لٹا دیا۔ اور درد تھا کہ خدا کی پناہ! لیکن کوئی ڈاکٹر صاحب میسر تھے نہ کوئی دلآویز مسکان والی نرس۔ چار گھنٹے اسی آزمائش اور عذاب میں گزر گئے۔ جب کوئی چارہ نہ رہا تو اتنی رات گئے مجھے اپنے باس کو فون کرنا پڑا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد پورٹیبل ایکسرے مشین کے ساتھ دو ڈاکٹر صاحب میرے بستر کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
اُن کے چہروں پر ہمدردی اور محبت کے آثار نہیں تھے، بلکہ خشونت ٹپک رہی تھی۔ پھر مجھے درد کُش ٹیکہ بھی ٹھوکا گیا جس نے رفتہ رفتہ بدن میں سکون اور اطمینان اتار دیا۔ فجر کی اذان کے ساتھ دونوں ڈاکٹر صاحبان میرے بستر کے قریب آئے، مجھے غور سے دیکھا اور نہایت درشت لہجے میں بولے: ’’اب تمہارا درد ختم ہو چکا ہے۔ گھر جاؤ۔‘‘ یہ حکم سنتے ہی میں نے بُوٹ پہنے اور نیویارک کے مہربان غیر مسلم ڈاکٹر اور غیر مسلم نرس کی مسکراہٹوں کو یاد کرتا ہوا باہر نکل آیا۔ سامنے ہی رکشے کھڑے تھے۔ ایک میں بیٹھا اور لاہور کی ویران سڑکوں پر بھاگتا ہوا چوبرجی اُتر گیاجہاں میرا بے آباد کوارٹر میرا منتظر تھا۔ اور سرما کی صبح بہت جوان تھی۔
اور یوں شروع ہوا وہ لا متناہی سلسلہ جس نے مجھے لاہور کے تمام سرکاری اسپتالوں اور سرکاری لیبارٹریوں کے منہ دکھائے۔ ایک مرض سے نجات حاصل کر کے دوسرے مرض کی گرفت میں جانے کا سلسلہ۔ لیبارٹری ٹیسٹوںاور اُن کی رپورٹوں، ایکسروں اور الٹرا ساؤنڈوں کے عکسوں سے کتنی ہی فائلیں بھر گئیں۔ ’’وطنِ عزیز‘‘ کے سرکاری اسپتالوں میں بے بس اور بیکس انسانوں کی تذلیل کے لا متناہی مناظر کو مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور خود بھی یہ ذلت برداشت کی ہے۔
روح کوکچلنے اور دل کو مسل دینے والی اپنی یہ جیون کتھا آج اس لیے یاد آئی ہے کہ ابھی چند دن پہلے مَیں نے ایک خبر پڑھی جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم جناب نواز شریف نے کسی شہر میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے ایسا بندوبست کر دیا ہے کہ اب کسی تہی دست مریض کی سرکاری اسپتال میں تذلیل ہوگی نہ اُسے علاج کے لیے اپنا گھر بار بیچنا پڑے گا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو مملکتِ خداداد پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کے منہ میں گھی شکر۔ شنید ہے کہ اِس مقام تک پہنچنے کے لیے اُن کی صاحبزادی کا بھی کوئی کردار ہے۔ میرا جن اسپتالوں سے اب بھی پالا پڑ رہا ہے، ایسا کوئی سلوک مجھ سے تو نہیں ہوا لیکن ممکن ہے ملک کے کئی حصوں میں مستحقین اس نئی سہولت سے مستفید ہو رہے ہوں۔
مجھے تو عملی طور پر بس اتنا معلوم ہوا ہے کہ مَیں آجکل جس ڈاکٹر صاحب کا ’’کلائینٹ‘‘ ہوں، وہ پہلے مجھے چیک کرنے کے سولہ سو روپے لیتے تھے لیکن اب پچھلے ہفتے سے انھوں نے اپنی فیس ڈھائی ہزار روپے کر دی ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے میری نظریں ٹی وی کے خبرنامے پر پڑ گئی ہیں اور مَیں سناٹے میں آ گیا ہوں۔ خبر پڑھنے والی بتا رہی ہے کہ بلڈ پریشر، دل کے امراض، شوگر وغیرہ کی دوائیوں کی قیمتوں میں تین فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اندازہ نہیں تھا کہ غریب مریضوں کے ذکر پر آبدیدہ ہونے والے جناب وزیراعظم نوازشریف کی موجودگی میں دوا ساز ادارے یہ نیا ظلم اتنی جلدی بھی ڈھا سکتے ہیں۔