چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے، غیر جمہوری رویے پر عوام کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس اورنج لائن منصوبے پرپنجاب حکومت کی اپیل کی سماعت کے دوران دیئے، سپریم کورٹ نے کہاکہ تاریخی عمارتیں قومی ورثہ ہیں ، تباہ نہیں ہونے دیں گے ، اورنج ٹرین لائن کی رپورٹس کےجائزےکیلئے آزادماہرین کے نام مانگ لیے۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ عوام سے جمہوریت کے نام پر مذاق ہورہاہے ،لوگوں کو اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت سوچنا چاہیے ،ایک انگریز جج نے کہا تھا جو لوگ ایسے لوگوں منتخب کرتے ہیں انہیں بھگتنا چاہیے،گڈ گورننس کے نام پر بیڈ گورننس ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کےدلائل کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا کی مداخلت پر عدالت نے اظہار برہمی کیا،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہمیں آپ کے رویے سے بہت مایوسی ہوئی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ کسی ایک شخص کا نہیں عوامی فلاح کا منصوبہ ہے،لاہور ہائیکورٹ کے فیصلےمیں بھی کچھ قانونی تقاضے پورے ہوئے نظر نہیں آتے۔
پنجا ب حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میںکہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے میں پانچوں رپورٹس کو غلط قراردیا گیا،ہائیکورٹ کے پاس ایساکوئی پیمانہ نہیں تھاجن کی بنیاد پر رپورٹس کو غلط قراردیا گیا،ہائیکورٹ نے ایسے کسی نصاب یاپیمانے کا ذکر بھی اپنے فیصلے میں نہیں کیا، اورنج لائن منصوبے سے متعلق رپورٹس کی نفی بغیر قانونی جواز کے کی گئی۔مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ہائیکورٹ نے یہ نہیں بتایا کہ درست کیا ہے اور نہ کوئی وضاحت کی ،کسی بھی تاریخی شہر میں ترقیاتی کاموں میں توازن رکھنا ہوتاہے،ترقیاتی کام بھی ہوں اور تاریخی ورثہ بھی محفوظ رہے ،اگر اورنج لائن ٹرین بننے سے شالامار باغ یا کوئی تاریخی عمارت گرتی ہے تو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ، لیکن ٹرین چلنے سے چوبرجی کو دیکھنے میں دقت ہو تو عدالت کو نظر انداز کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ نے فریقین سے اورنج ٹرین لائن کی رپورٹس کا جائزہ لینے کے لیے تین ،تین آزاد ماہرین کے نام طلب کرلیے۔کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔