وطن کو کچھ نہیں خطرہ،
نظامِ زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے،
وہی رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صفِ ماتم بچھائے مرگِ ظلمت پر
وہ نوحہ گر ہے خطرے میں،
وہ دانشور ہے خطرے میں
جب بھی الیکشن کا دور آتا ہے یا نظام بدلنے کی بات ہوتی ہے کچھ مخصوص قوتیں عوام میں خوف و ہراس کی فضاء قائم کر کے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتی ہیں۔ عوام کو کبھی انڈیا کی گیدڑ بھبکیوں سے تو کبھی امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ سے ڈرایا جاتا ہے۔ ایسی فضاء بنانے کی کوشش ہوتی ہے جیسے پاکستان ایک آزاد ریاست نہ ہو کوئی تھڑے پہ بیٹھی قوم ہو جس سے اس کا تھڑا چھینا جا رہا ہو۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے۔ دنیا کی بہترین فوج اس کے پاس ہے۔ جدید ترین دفاعی سسٹم رکھنے والی ریاست میں یہ خوف و ہراس کی فضا پھیلانے کا ایک ہی مقصد رہا ہے کہ نظام زر کو بچایا جائے۔
جو کچھ نوے کی دہائی میں ہوتا رہا، وہی آج ہو رہا ہے۔ 1994 میں بے نظیر بھٹو صاحبہ کے اقتدار کے خاتمے کے لئے ہندوستان میں دو سال قبل ہی بابری مسجد جیسا سانحہ ہوتا ہے۔ نواز شریف کو اپنی کمپین چلانے کے لئے ایک بیانیہ مل جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو پر انڈیا کے ساتھ ساز باز کے الزامات لگتے ہیں۔ ہندوستان سے بابری مسجد کا انتقام لینے کے نعرے لگتے ہیں اور پھر کراچی سے ایک کاروانِ نجات چلتا ہے۔ بالآخر بے نظیر کی حکومت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ تب بھی عوام کو انڈیا کی اشتعال انگیزی کا سامنا رہا۔ وہی خوف تب بھی قوم پر مسلط کیا جاتا رہا جو آج ففتھ جنریشن وار کے نام پر پھیلا کر کچھ نئے چہرے متعارف کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جب جب اس نظام اور اس نظام کے محافظوں کے گرد شکنجہ کسا گیا تب تب عوام کو بیرونی مداخلت کاروں کے خوف میں مبتلا کر کے کبھی سرحدوں کی خلاف ورزی کروا کر کبھی دہشت گردی کو آڑ بنا کر عوامی جذبات کو منتشر کیا جاتا رہا اور کسی نااہل، نالائق لاڈلے کو ہیرو بنا کر قوم کو ایک نااہل نجات دھندہ کے پیچھے لگایا جاتا رہا۔ وطن عزیز کو نہ تب کوئی خطرہ تھا نہ آج پاکستان خطرے میں ہے۔ اگر کوئی خطرہ ہے تو نظامِ زر کو خطرہ ہے جس کو بچانے کے لئے نااہل حکمرانوں، حریص طالع آزمائوں، خودغرض سیاستدانوں نے عوام کو بےوقوف بنا رکھا ہے۔ اگر پاکستان اتنا کمزور ملک ہے جو انڈیا کی دھمکیوں سے مرعوب ہو جاتا ہے، سینکڑوں میل دور سے امریکہ کی سازشوں کا شکار ہو جاتا ہے تو ہم یہاں کروڑوں اربوں روپے ان اداروں پہ کس لئے خرچ کر رہے ہیں؟ یہ ادارے پنپ کیوں نہیں رہے؟ ملک کو مستحکم کیوں نہیں ہونے دیا جا رہا؟ وہ جو غداری کے مرتکب ہو رہے ہیں جو دھرتی ماں کا آنچل اور اس کے راز غیروں کو بیچتے ہیں ان کی گرفت کیوں نہیں ہوتی؟
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس نظام سے سب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان سب کا شئیر ہے اس نظام میں جو نظام بدلنے کی بجائے باہم مل کر چہروں کے بدلنے کا اہتمام کرتے ہیں اور عوام کو انڈیا، اسرائیل اور امریکہ سے دھمکاتے ہیں۔ اگر کسی کرپٹ لٹیرے کے خلاف کوئی لانگ مارچ ہو تو ہماری سرحدیں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔ طاہرالقادری کا لانگ مارچ اور انتخابی اصلاحات کا مطالبہ ہو تو عمران خان صاحب کو بھی سمجھ نہ آئے کہ یہ کیا مطالبہ ہے، کوئی کرپشن لوٹ مار اور مہنگائی غربت اور بیروزگاری کے خلاف دھرنا ہو تو بلااشتعال سرحدوں پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ عام حالات میں ساڑھیوں اور پھولوں کے گلدستوں کا تبادلہ کرنے والے جب ان کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہو، وہی پیار محبت کی پینگیں بڑھانے والے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں۔ عدالتوں پر حملے کرنے والے، عدالتی فیصلوں میں روڑے اٹکانے والے نظامِ زر کے یہ سب محافظ اپنے عالمی آقائوں سمیت وطن عزیز کے اندر بھی سب مک مکا کیئے ہوئے ہیں۔ ایک لاڈلہ جاتا ہے تو دوسرا لاڈلہ تیار کھڑا ہوتا ہے۔ مگر جب نظام پر حرف آئے نظام کے خلاف کوئی آواز بلند ہو تو ملکی سالمیت خطرے میں چلی جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وطن کو کچھ نہیں خطرہ، نظامِ زر ہے خطرے میں۔ حقیقت میں جو رہزن ہے، وہی رہبر ہے خطرے میں۔ اگر ملک کو واقعی ہی خطرات ہیں تو کٹھ پتلیاں کیوں اس قوم پر مسلط کی جاتی ہیں؟ قانون اور آئین کی بالادستی قائم کیوں نہیں ہونے دی جاتی۔ اس اپاہج، بانجھ نظام کو بدلنے کی بجائے لاڈلوں کو اقتدار تک رسائی کی بساط کیوں بچھا کر دی جاتی ہے؟ یہ نظام اور الیکشن کمیشن ایسے مہروں کو آئینی و قانونی لگام کیوں نہیں دیتا جو ہر چڑھتے سورج کے پجاری بن کر وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ جو ایک جگہ سے کرپشن، لوٹ مار اور اقربا پروری کے دروازے بند ہوتے دیکھتے ہیں تو کسی دوسری شاخ پہ جا بیٹھتے ہیں۔ یہ کیسا اصول، کیسا ضابطہ ہے کہ لوٹنے والے لٹیروں کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ جائو عیش کرو، یہاں نہیں تو وہاں چلے جائو، کمائو، لوٹو، کھائو اور ہمارے لئے بھی راستہ نکالو۔ پاکستانی قوم کو ہوش میں آنا ہوگا اور اس نظامِ زر کی چالوں کو سمجھنا ہوگا۔ قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کے لئے ہمیں ان شاطر قوتوں کا راستہ روکنا ہوگا۔ لوٹوں اور لٹیروں کو مسترد کرنا ہوگا۔ لاڈلوں کا ہمیشہ کے لئے دروازہ بند کرنا ہوگا۔