عالم جوانی میں خواہشات نفسانی کو لات مارکر میں دن میں دودفعہ بابا عبدالقادر مرحوم کے پاس ضرور جاتا تھا، اور ان کے ساتھ پڑی ہوئی بالٹی میں برف ڈالتا، جو گرمی کے عالم شباب پر تھوڑی ہی دیر بعد پھر گرم ہوجاتی، مگر میں اپنی ڈیوٹی نہایت ایمانداری اور خلوص سے تقریباً تین چار سال تک باقاعدگی سے ادا کرتا رہا، بابا جی کھلی چھت تلے دس بارہ اینٹوں پر 20سال سے مسلسل بیٹھے تھے میں اپنے دفتر سے اٹھ کر کئی دفعہ گھر سے سوٹ پہنے ٹائی لگائے، آکر یہ کام کرتا تو قرب وجوار میں دیکھنے والے، اور دکانوں میں بیٹھنے والے، شاید مجھے احمق ، بے وقوف یاکم عقل سمجھتے ہوں گے، خیر یہ ان کی اپنی سوچ تھی مگر میں تحریک انصاف کے چیئرمین کی طرح کانوں میں روئی دبائے، اور عوام کی چیخ وپکار سنے بغیر آئی ایم ایف کے مطالبات پر کان دھرنے، اور ان کے مطالبات ماننے کی طرح میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بندے کو خوش کرنے اور خدا کو راضی کرنے کی خاطر یہ کام مسلسل بغیر وقفے کے کئی سال تک کرتا رہا۔
بابا عبدالقادر کسی سے کوئی بات نہ کرتے تھے، اور نہ کچھ لیتے تھے، نہ پیسے اور نہ کھانے پینے کی کوئی چیز، اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ اعزاز صرف مجھے حاصل تھا، جسے دیکھ کر ایک دفعہ پنجاب بارکونسل کے صدر مشہورایڈووکیٹ منصورالرحمن خان آفریدی نے مجھ سے حیرت سے پوچھا، کہ یار تم تو بابا جی سے بات بھی کرلیتے ہو، اور مل بھی لیتے ہو، مگر ہمیں تو یہ اجازت بالکل نہیں ہم محض دور دور سے ان کو دیکھ لیتے ہیں، اور باہر کافی دیرتک کھڑے رہتے ہیں، مشہور شخصیت برنی صاحب کراچی والے محض بابا عبدالقادر کو ملنے کراچی سے آتے ہیں، اور نہر کے کنارے جوتے اتار کر پیدل ان کے پاس جاتے ہیں خیراتنے سال کی مشقت کے بعد میرا حوصلہ کچھ بڑھ چکا تھا، ایک دن میں نے ان سے ذرابے تکلف ہوکر ایک سوال کرہی دیا، اور پوچھا بابا جی، اگر آپ کی اجازت ہو تو میں فلاں کام کرلوں ، واضح رہے، کہ کام سے مراد بزنس تھی کہ فلاں بزنس میں پیسہ لگادوں، توبابا جی نے ناگوار انداز میں تھوڑی سی دیر خاموشی اختیار کی، اور پھر میرے ماتھے پہ زور سے انگلی لگاکرکہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھی تو عقل عطا کی ہے ، آپ اس سے کام کیوں نہیں لیتے؟ اس کے علاوہ انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی، اور اس دن کے بعد مجھ میں کبھی دوسری بار جرا¿ت ہی نہیں ہوئی، کہ میں ان سے اس قسم کی کوئی بات پوچھتا۔ اب تو میں اللہ کے فضل سے خود بابا میرانی ہوں، زمانے کے دھکے کھاکر اور لاہور کے تقریباً تمام بابوں سے یاری لگاکر مثلاً بابا اشفاق احمد خان اور بانو آپا، جن کے گھر کے ایک فرد کی طرح، میرا اپنا مکان ہونے کے بعد میرا ان کے ہاں بڑا اچھا ”مقام“ تھا، اور بابا غلام حیدر بٹ صاحب، جو داتا دربار میں نماز مغرب سے لے کر نماز فجر تک مسلسل نوافل پڑھنے میں مصروف رہتے ، ان سے ایک خاص شفقت ، محبت اور انس تھا، مرحوم کا یہ احسان تھا کہ وہ کچھ نوافل میرے اور میرے بچوں کی خاطر بھی پڑھتے تھے، ان میں جناب مجید نظامی، سابق آئی جی رانا مقبول احمد صاحب، اور کچھ کالم نگار بھی شامل تھے، قارئین ، دعاﺅں کا اثر آپ دیکھیں، کہ آصف علی زرداری، حکمرانی کے دوران لاکھ کوششوں کے باوجود رانا مقبول صاحب کا بال بیکا بھی نہ کرسکے قارئین کرام ، آپ کو شاید یہ سمجھنے میں دقت ہورہی ہوگی، کہ میں بزرگوں کی بات لکھ کر کیا ثابت کرنا چاہتا ہوں۔
مختصر یہ کہ اتنے سال پانی بھروانے، چائے گھر سے بنواکر لانے، اور پھر بالکل اتنی خدمت کرانے کے بعد جب میں نے ان سے مشورہ کیا، تو انہوں نے ہماری آج کل کی رائج زبان سے کہا کہ خدانے عقل دی ہے نا، اس سے کام لو، کیا اللہ تعالیٰ نے وزیراعظم عمران خان کو عقل نہیں دی؟ وہ اس سے کام لیں اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ برسہا برس، سے ایک ہی بات رات دن کرتے رہنا، عقل مندی کی نشانی نہیں، بلکہ ”سائیں لوگوں“ سے ایسا عمل اور ایسی بات عوام مختص کردیتے ہیں، اللہ نے اگر عقل دی ہے ، تو صرف ریاست مدینہ کا نام لینے سے کام نہیں چلتا، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے، کہ انہوں نے اس وقت کونسا نظام رائج کیا تھا، کہ جو مدینہ شریف میں ابھی تک چل رہا ہے ۔
قارئین وہ سیدھا نظام ، اور اس وقت مدینہ شریف کی تجارت پر ایک نظر لگالیتے ہیں، تاکہ حقیقت کے قریب تر پہنچ جائیں، اب یہ کام فریضہ سمجھ کر عمران خان قوم کو بتائیں گے، یا پھر یہ کام بھی نواز خان کو ہی کرنا ہوگا، جس کے ذہن میں تو فی الحال یہ چیز بسی ہے ، کہ میڈیا کے ہزاروں لوگوں کو اخباروں، اور ٹی وی چینلوں سے نکال کر بے روزگار کرکے ان کے بچوں سے روٹی کا نوالہ چھین لینا، کس کے ذہن ناپختہ وناتجربہ کار کی یہ اختراع تھی، کہ کسی کی روزی پہ لات مارکر ان سے یہ توقع رکھنا، کہ وہ تحریک انصاف کی ناانصافی پہ بھڑاس نہیں نکالیں گے، جن کی روٹی اور روزی دونوں بند کردی ہوں۔ ستر سال حکومت کرنے والے لوگ، اتنے ناعقل وبے وقوف نہیں تھے کہ ورنہ وہ ڈی جی پی آر، یعنی تعلقات عامہ کا محکمہ ہی نہ بناتے، اب سناہے ، کہ دوبارہ عقل نے رسائی کی، تو پھر ان کی گرانٹ کھول کر غالباً 20کروڑ کی پہلی قسط کی ادائیگی بھی کردی گئی ہے ، سوچنے کی بات تھی، کہ جس کالم نگار کو اس کا معاوضہ ہی نہیں دیا جائے گا، تو وہ حق میں کس منہ سے لکھے گا، یہی وجہ ہے ، کہ کلمہ حق میری طرح دوسرے لکھنے والے بھی چاہے انہیں معاوضہ ملے یا نہ ملے، وہ غلط بات کی ترجمانی، اور بے ایمانی پہ کبھی بھی قائل نہیں ہوں گے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہرانسان کو ایک ضمیر بھی عطا فرمایا ہے ، جس کی بنا پر وہ صحیح فیصلے کرتا ہے ، اس لیے دانشوران عالم کا یہ کہنا ہے کہ اگر کسی بھی مذہب کے معصوم بچے کو مذہبی تعلیم دیئے بغیر صرف تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جائے، تو وہ بچہ صحیح باعمل انسان، اور سچا مسلمان نکلے گا۔ تف ہے ، ایسی سوچ پہ ، جو یہ فرمان جاری کرتے ہیں، کہ وزیراعظم عمران خان تو دیانت دار ہیں، ان کی ٹیم نہیں ٹھیک، ٹیم کیا عمران خان کے بجائے نواز خان نے بنائی ہے ؟ اب تک پاکستان کے صریحاً مفاد کے خلاف جو فیصلے ہوئے ہیں، اور عوام کے حق میں ایک بھی فیصلہ نہیں ہوا، کیا یہ قابل گرفت نہیں ؟ قارئین عوام کے حق میں اب تک سال کے قریب حکومت کرنے والے نے کوئی ایک بھی فیصلہ کیا ہے ، تو مجھے ضرور بتائیے گا ، تاکہ میںبھی کلمہ حق لکھنا، اور بولنا چھوڑ دوں۔