برائی کی طرح پھیلا ہوا پیٹ، چھوٹی چھوٹی پیلی پیلی آنکھیں، سر پر سبز ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح۔۔
شیر فروش۔۔ دکان کے چھوٹے کو ہدایت نامہ جاری کر رہا تھا۔۔
“دہی دا۔۔جہیڑا ددھ اے،
اودھے اچ اڑاڑوٹ دھیان نال پانی اے،
ماہ رمضان دا مبارک مہینا شروع ہو گیا اے۔”
جس معاشرے میں دودھ میں پانی، یوریا، کھاد، سرف پاؤڈر۔۔۔۔
گوشت میں پانی، سرخ پسی ہوئی مرچوں میں اینٹوں کا برادہ
چائے کی پتی میں کالے چنوں کے چھلکے
ابلی کچی کجھوروں پر گڑ کا شیرا اور چمک کے لئے تیل
مرغی کی ہڈیوں اور آلائشوں سے نکالے گئے تیل میں
ملاوٹی بیسن سے بنے سموسے اور پکوڑے تلے جاتے ہوں
اس معاشرے میں خیر و برکت کیسے آئے؟
قوم کا عمومی مزاج تو یہ ہے کہ وہ 30 سیکنڈ کے ٹریفک اشارے پر نہیں رکتی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ خود احتسابی سے بے خبر یہ عوام پاناما سمیت کرپشن کے مقدمات کا منطقی انجام بھی دیکھنا چاہتی ہے۔ کیا قول و فعل کا تضاد ہے۔
ہم صرف اسی آسرے پر جی رہے ہیں ہے کہ وہ بڑا غفورالرحیم ہے، معاف کردے گا۔ بے شک ایسا ہی ہے لیکنجان رکھو اس کا عدل اٹل ہے۔
“ذرہ بھر نیکی کرنےوالا جزا پائے گا اور ذرہ بھر شر کرنے والا بچ نہیں پائے گا۔”