تحریر : سید توقیر زیدی
برطانیہ میں جمہوری نظام دو بڑی سیاسی جماعتوں پر استوار ہے، اقتدار عام طور پر انہی دو جماعتوں کے درمیان گردش کرتا رہتا ہے۔ آج کل کنزرویٹو پارٹی کی حکومت ہے جسے ٹوری پارٹی بھی کہا جاتا ہے یہ جماعت ڈیوڈ کیمرون کی قیادت میں مسلسل دوسری مرتبہ برسر اقتدار ہے۔ پہلی ٹرم میں اسے لبرل پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانی پڑی تھی لیکن دوسری مرتبہ اسے غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی جس کی وجہ سکاٹ لینڈ ریفرنڈم کے بعد ان کو حاصل ہونے والی مقبولیت تھی۔ اب تک اس جماعت کی اکثریت قائم ہے تاہم اب لیڈر نیا منتخب ہوگا کیونکہ ڈیوڈ کیمرون برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل رکھنے کے حامی تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم کی طرح یہ ریفرنڈم بھی جیت جائیں گے لیکن لیڈر جتنا بھی بڑا ہو، اس کی ساری خواہشیں کبھی پوری نہیں ہوتیں، ڈیوڈ کیمرون نہ صرف اپنے عوام میں مقبول تھے بلکہ ان کی شخصیت بھی کرشماتی تھی اور کم عمری میں وزیراعظم کے اعزاز کے حامل تھے۔
لیکن جونہی انہوں نے ریفرنڈم کا نتیجہ اپنے خلاف دیکھا کوئی وقت ضائع کئے بغیر انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ ابھی کسی جانب سے ان کے خلاف کوئی آواز ہی نہیں اٹھی تھی لیکن انہوں نے ریفرنڈم کی شکست کے بعد اعلان کیا کہ اب برطانیہ کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو اس کے یورپی یونین سے انخلا کی کارروائی مکمل کرے اور قوم کی قیادت کرے۔ جس وقار اور متانت سے انہوں نے شکست تسلیم کی اسے اندرون ملک اور بیرون ملک سراہا گیا، ان کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کیا گیا۔ کسی جانب سے اس طرح کی آوازیں نہیں اٹھیں کہ وہ ملک کیلئے ناگزیر ہیں، وہ وزیراعظم نہ رہے تو برطانوی اقتدار کے سورج کو گہن لگ جائے گا۔ کوئی دوسرا شخص ان کی صلاحیتوں کا مالک نہیں، جو انہیں حاصل ہیں۔ کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ برطانیہ کو غیر معمولی حالات درپیش ہیں
ان حالات میں انہیں مستعفی نہیں ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ بس اِدھر انہوں نے اعلان کیا اور اْدھر حکمران جماعت نے اپنی صفوں میں نیا لیڈر تلاش کرنا شروع کردیا، جن میں ایک خاتون وزیر داخلہ تھریسا مے بھی شامل ہیں۔ لندن کے سابق میئر بورس جانسن کا نام ان کے متوقع جانشینوں میں شامل تھا، جو ڈیوڈ کیمرون کے قریبی ساتھی تھے لیکن چند ماہ پہلے وہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے حامی ہوگئے تھے۔ اسی وقت مبصرین نے کہنا شروع کردیا تھا کہ بورس جانسن ریفرنڈم میں ڈیوڈ کیمرون کی شکست کا باعث بن جائیں گے اور ہوا بھی یہی، اس لئے عام خیال یہ تھا کہ اب بورس جانسن ہی ڈیوڈ کیمرون کے جانشین ہوں گے لیکن انہوں نے اس مقابلے سے خود کو الگ کرکے سب کو حیران کردیا۔ اب ڈیوڈ کیمرون کے جانشین کی تلاش کا مرحلہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
تھریسا مے کے بارے میں خیال ہے کہ ٹوری پارٹی ریفرنڈم ہارنے کے بعد جس صدمے سے دوچار ہے اور پارٹی کے اندر جس طرح دراڑیں پڑچکی ہیں وہی ان حالات میں پارٹی کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ریفرنڈم میں اگرچہ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم بہت سے ٹوری ارکان اپنے لیڈر کی رائے سے مختلف رائے رکھتے تھے اور انہوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ یورپی یونین سے نکلنے کیلئے یونین کے دستور کے آرٹیکل 50 میں وہ طریق کار درج ہے جس پر عمل پیرا ہوکر کوئی ملک یونین سے الگ ہوسکتا ہے۔ تھریسا مے نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ فی الحال اس آرٹیکل کو بروئے کار نہ لایا جائے لیکن یورپی یونین کے لیڈر ان کے اس مطالبے کو ماننے سے گریزاں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ریفرنڈم کے بعد اب جتنی جلد ممکن ہوسکے برطانیہ یونین کو خیرباد کہہ دے اور اس مقصد کیلئے بات چیت کا آغاز کردے۔ ہنگری میں بھی یونین کے مہاجرین کے کوٹہ منصوبے پر ریفرنڈم کا اعلان ہوچکا ہے۔
برطانیہ کے ریفرنڈم نے ”یورپین پراجیکٹ” پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ سکاٹ لینڈ میں جو یونین میں شامل رہنے کے حق میں تھا اب یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کے متعلق ایک اور ریفرنڈم کرایا جائے۔ ڈیوڈ کیمرون نے یہ مطالبہ مسترد کردیا تھا تاہم سکاٹش قوم پرست اس کے حق میں مسلسل مہم چلائے ہوئے ہیں۔ ریفرنڈم کے بعد ڈالر کے مقابلے میں برطانوی پاؤنڈ کی قیمت مسلسل کم ہو رہی ہے جس کے اثرات برطانوی معیشت پر بھی پڑ رہے ہیں۔ ان اثرات سے بچنے کیلئے یورپی یونین سے علیحدگی کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کے حق میں رائے ہموار ہو رہی ہے۔ دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ ڈیوڈ کیمرون نے مسترد کردیا ہے۔ برطانیہ کی سرکاری ویب سائٹ پر 26 لاکھ لوگوں نے یہ مطالبہ کیا تھا۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے انتخابات بھی قبل از وقت ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ کنزر ویٹو پارٹی کے 330 ارکان پارلیمنٹ قیادت کے پانچ امیدواروں کے حق میں ووٹ دیں گے جس کے بعد یہ تعداد شارٹ لسٹ ہوکر دو رہ جائے گی۔
پارٹی کے ایک لاکھ پچاس ہزار ارکان کے ووٹوں کے بعد 9 ستمبر کو یہ اعلان کردیا جائے گا کہ ڈیوڈ کیمرون کا جانشین کون ہوگا۔ تھریسا مے کے علاوہ وزیر انصاف مائیکل گوو بھی پارٹی قیادت کے امیدوار ہیں۔ لیبر پارٹی میں بھی بحرانی کیفیت ہے پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تھی جس پر عملدرآمد اگرچہ ضروری نہیں تھا تاہم کوربن اب تک اپنے عہدے پر موجود ہیں اور باغیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں تاہم اس دوران آنے والی چلکوٹ رپورٹ نے برطانیہ میں ایک نیا تہلکہ مچا دیا جس میں 2003ء میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے عراق جنگ میں کود پڑنے کے فیصلے کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے اور جس میں کہا گیا کہ عراق پر چڑھائی سے قبل تمام پرامن طریقوں کو استعمال نہیں کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق کے خلاف فوجی کارروائی آخری حل نہیں تھا کیونکہ صدام حسین سے برطانیہ کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہ تھا۔
تحریر : سید توقیر زیدی