تحریر : ڈاکٹر رئیس صمدانی
تھریسا میری مے برطانیہ کی دوسری خاتون وزیر اعظم ہیں جو مرگریٹ تھیجر کے بعداس عہدہ پر فائز ہوئیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون عوامی رائے کے احترام میں اپنے منصب سے مستعفی ہوئے، ابھی ان کی حکمرانی کا کچھ وقت باقی تھا۔ کیمرون کا کہنا تھا کہ برطانوی عوام نے یورپی یونین کے ساتھ الحاق جاری رکھنے کے حوالے سے ان کی رائے کے برعکس رائے دی، ایسی صورت میں ان کا وزیراعظم رہنے کااخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے، چنانچہ وہ اس عہدے سے مستعفی ہورہے ہیں۔ اگر کیمرون کی اس بات سے کلی اتفاق بھی کر لیا جائے اور سچ معلوم بھی ہوتا ہے کہ ان کے مستعفی ہونے کی صرف یہی وجہ ہے کوئی اور نہیں، یہ بہت بڑی بات ہے۔
قابل تقلید عمل ہے حاکموں کے لیے خصوصاً پاکستان کے حکمرانوں، وزیروں اور سفیروں کے لیے جو بڑے سے بڑے واقعہ پر اس طرح خاموشی اختیار کر لیتے ہیں جیسے انہیں سانپ سونگھ گیا ہو یا پھر اپنے عہدے پر قائم رہنے کے ایسے ایسے جواز پیش کرتے ہیں، اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔ ڈیویڈ کیمرون کا یہ عمل قابل ستائش اور قابل تعریف ہے۔ اہم اور خوش آنید بات یہ بھی ہے کہ برطانوی عوام یا کیمرون کی اپنی پارٹی میں سے کسی نے ان کی حمایت میں مظاہرہ نہیں کیا، آواز نہیں اٹھائی، کوئی اخباری بیان سامنے نہیں آیا، ان کی پارٹی کے وزیروں نے ٹی وی پر آکر شاہ سے وفاداری کے لیے حلق پھاڑ پھاڑ کر اعلان نہیں کیا، ہماری صورت حال یہ ہے کہ اگر شاہ کسی بات کو سچ بھی سمجھے ، وہ خود خاموش رہے اس کے وفادار پورے ملک میں ایک ہنگامہ سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
ٹی وی پر شاہ کے حق میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں گویا یہ ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہوچکا ہے۔ نہیں معلوم ہمارے ملک میں سیاسی میچیورٹی کب آئے گی، ستر سال کم نہیں ہوتے، دو نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں، قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والا بچہ آج 70سال کا بوڑھا ہوچکا ہے۔ جب اس موضوع پر بات کی جاتی ہے تو سیاست کے کھلاڑی یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ان ستر سالوں میں فوجی آمریت طویل عرصہ رہی، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سربراہ تو بے شک فوجی رہالیکن اس کے ساتھ تو غیر فوجی اور سیاسی لوگ حکمرانی کرتے رہے۔ دراصل ہماری سیاسی جماعتوں میں سیاسی تربیت کرنے کا کوئی منصوبہ کوئی پروگرام ہی نہیں، جو بھی سیاست داں مقبول ہوگیا وہ صرف اپنی قیادت کو چلتے رہنے پر رواں دواں نظر آتا ہے، اپنی جماعت کے کارکنوں کی سیاسی تربیت کی جانب کسی بھی سیاسی لیڈر کا خیال نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے ورکرز کی سیاسی، اخلاقی ، تہذیبی تربیت کرے۔ اپنے ورکرز کو مثالی سیاسی ورکر بنائے۔
تحریک انصاف کے معزول لیڈر جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے جب وہ اپنی جماعت میں فعال تھے اس جانب پیش قدمی کی کوشش کی تھی جو ان کی قیادت کو پسند نہیں آئی، نتیجہ سامنے ہے۔ہمارے ہاں سیاسی میچیوریٹی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے سیاست داں ٹی وی ٹاک شو پروگرام جو لائیو ہو رہا ہوتا ہے، خاتون اس کی میزبانی کررہی ہوتی ہیں، باہم دست وگریباں ہوتے بہیں ، کھلے عام گالی گلوچ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ بات تھریسامے کی شروع کی تھی چلی گئی پاکستانی سیاست پر، تھریسامے برطانیہ کی دوسرے خاتون وزیر اعظم ہیں۔یہ آکسفورڈ کی فارغ والتحصیل ہیں، 1997سے برطانوی پالیمان کی رکن اور طویل عرصہ سے برطانیہ کی وزیر داخلہ رہنے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔
سیاست میں آنے سے قبل تھریسامے بنک آف انگلیڈ کے لیے اور ایک مالیاتی ادارے کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ تھریسامے کے سیاسی خیالات کیمرون سے مختلف نہیں ، انہوں نے کیمرون کے خیالت کی حمایت کی تھی لیکن انسانی کمزوری ، طاقت اور وزارت اعظمی کی کشش و چمک نے انہیں اپنے نظریات کوپس ِ پشت ڈالنے پر مجبور کردیا ، وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ بھی کیمرون کی ہم خیال تھیں لیکن اب عوامی رائے کااحترام کر تی ہیں۔وہ اب یورپی یونین میں برطانیہ کی واپسی کی ہر کوشش کے خلاف ہیں۔ جون میں برطانیہ میں ہونے والے ریفرینڈم میں برطانوی عوام نے باطانیہ کو یورپی یونین سے الگ ہو جانے کے حق میں فیصلہ دیا۔
برطانوی عوام کا یہی فیصلہ کیمرون کے لیے استعفےٰ کا باعث بنا کیوں کہ کیمرون برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حامی تھے۔ کیمرون کے مستعفی ہوجانے کے بعد وزارت اعظمی کی دوڑ میں دو امیدوار تھے ایک تھریسامے اور دوسرے اینڈریالیڈسم، تھریسامے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ، سمجھدار، سیاسی سوج بوجھ رکھنے والے سیاست داں ہیں، برطانوی سیاست میں گزشتہ 19 سال سے سرگرم عمل ہیں۔ وہ پہلی مرتبہ 1997 میںبرطانیہ کی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں ۔ اس سے قبل وہ مقامی سطح پر سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں فعال رہ چکی تھیں۔ 2002میں تھریسامے برطانیہ کی سیاسی جماعت کنزرویٹو پارٹی کی پہلی خاتون چیرٔ پرسن کے عہدہ پر فائز ہوئیں، برطانیہ کے وزیر داخلہ (ہوم سیکریٹری) کی حیثیت سے وہ گزشتہ چھ سالوں سے خدمات انجام دے رہی تھیں۔ ان کے سیاسی تدبر نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مقابلے میں اس عہدہ کے لیے جو امیدوار تھے انہیں تھریسامے کے مقابلے میں پذیرائی نہ مل سکی۔
برطانیہ کی 90 سالہ ملکہ الزبتھ دوم حکمرانی کے 64 سال مکمل کرچکی ہیں، انہوں نے اپنے والد کنگ جارج ششم کے انتقال کے بعد 6 فروی 1952کو تاج برتاطانیہ کا عہدہ سنبھالا تھا ۔ ان کے زیر نگرانی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے والی تھریسامے تیرھویں وزیر اعظم ہیں۔ ان سے قبل ونسٹن چرچل، انتھونی ایڈن، ہیرولڈمیکلن، الیک ڈگلس ہوم، ہیرولڈ ولسن، ایڈورڈ ہیتھ، جیمس کلا گھن، مارگریٹ تھیچر، جان میجر، ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن اور ڈیوڈ کیمرون شامل ہیں۔تھریسا میری مے یکم اکتوبر1956 کو پیدا ہوئیں۔ اس وقت ان کی عمر 60 سال ہے، تھریسامے کے والدین کا انتقال اں کی کم عمر ہی ہوگیا تھی ، اس کے والد ایک حادثہ میں جب کہ اس کی والدہ بھی انہیں دنوں انتقال کر گئیں تھی۔ تھریسامے نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، گریجویشن 1977میں کیا۔جغرافیہ ان کا بنیادی مضمون تھا۔
وہ خدمت خلق اور سیاست کے میدان کی سہسوار تھیں۔ آکسورڈ میں ان کی تعلیم کا زمانہ وہی تھا جب پاکستان کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹوں بھی آکسفورڈ سے وابستہ تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی تعلیم کا زمانہ 1973سے 1977کا تھا، انہوں نے گریجویشن تو ہارڈورڈ سے سے کیا ، اس کے بعد وہ سینٹ کیتھرائین کالج، آکسفورڈ سے وابستہ ہوگئیں،وہ لیڈی مارگریٹ ھال، (Lady Margrate Hall, LMH Oxford)سے بھی بہ سلسلہ تعلیم وابستہ رہیں، 1976میں وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیںتھیں، یہی وہ دور تھا جب تھریسامے بھی آکسفورڈ سے منسلک تھیں۔ اس تعلق کی وجہ سے اس بات میں حقیقت ہوسکتی ہے کہ بے نظیر بھٹو نے تھریسامے اور ان کے شوہر فلپ مے(Philip May)کے ساتھ شادی میں کوئی کردار ادا کیاہو۔ تھریسا مے اور فلپ مے کی شادی 1980میںہوئی تھی۔ بعض احباب نے یہ بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ تھریسامے اور پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے مابین بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ پاکستان کے حق میں بہتری کا ہی باعث ہو گا۔
تھریسامے اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی شعور رکھنے والی خواتین میں شمارہوتی ہیں۔ دونوں کے والد مذہبی رہنما تھے۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی قربت اور دوستی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ تھریسا مے نے برطانیہ کی وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال نے کے ایک ہفتہ بعد ہی جرمن چانسلر کی دعوت پر پہلا عالمی دورہ بحیثیت وزیر اعظم جرمنی کا کیا۔ جرمنی کے شہر برلن میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے تفصیلی ملاقات ہوئی اور باہمی امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ مے کا کہنا تھا کہ جرمن ہمارا خاص دوست ملک ہے اس کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہی ہوگا کمی ہرگز نہیں آئے گی۔
تھریسامے نے اپنے والدین کے بغیر اپنی عملی زندگی کو کامیاب بنا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک با ہمت ، حوصلہ مند خاتون ہیں۔ وہ جسمانی اعتبار سے کمزور ہیں، اس کی ایک وجہ ان کازیابیطس یعنی شوگر کا مریض ہونا ہے وہ 2012سے اس مرض میں مبتلا ہیں اور روز انسولین لیتی ہیں۔ برطانیہ میں ان کے وزیر اعظم کے انتخاب کے دوران ان کے مخالفین کو ان کی کوئی ایسی خامی، غلطی یا اسکینڈل تو نا ملا جس کو بنیاد بنا کر وہ مے کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کی سعی کرتے ، انہوں نے تھریسامے کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا۔ یہ اپنی جگہ درست ہے کہ تھریسامے کے ہاں اولاد نہیں لیکن مخالفین کا یہ طعنہ تھریسامے کے لیے نقصان کے بجائے فائدہ مند ثابت ہوا۔ برطانوی عوام نے تھریسامے کے مخالفین کی اس بات کو پسند نہ کیا اور اسے ایک گری ہوئی بات گردانا۔ ثابت ہوتا ہے کہ سیاست میں لوگ خواہ وہ کسی بھی قوم و ملک سے تعلق رکھتے ہوں ،اپنے سیاسی مخالفین کے لیے کسی بھی سطح تک جا سکتے ہیں۔
تحریر : ڈاکٹر رئیس صمدانی