لاہور(ویب ڈیسک) ایک روز ایک شوہر جب باہر سے اپنے گھر میں داخل ہوا، تو دیکھتا ہے، کہ اس کی بیوی زار و قطار رو رہی ہے، رونے کا جب سبب دریافت کیا، تو بیوی کہنے لگی: ہمارے گھر کے پیڑ پر بیٹھنے والے پرندے بسا اوقات مجھے بلا شرعی حجاب اور بغیر پردے کے دیکھتے ہیں، تو مجھے ڈر لگتا ہے، کہ کہیں اس میں اللہ کی معصیت اور گناہ کا ارتکاب نہ ہوتا ہو، جس کا اگر مجھے ایک دن اللہ کے سامنے حساب دینا پڑ گیا، تو میں کیا جواب دوں گی؟ بس یہی سوچ کر اور اسی خوف سے میں رو رہی ہوں! بظاہر انتہائی نیک اور دینی جذبات سے لبریز بیوی کا یہ جواب سن کر شوہر بہت خوش ہوا، اور اس کی اس درجہ پاکدامنی، پاکیزگی اور جذبئہ خدا ترسی کو دیکھتے ہوئے عالمِ بے خودی میں فورا اس کا ماتھا چوما، اور اسی وقت کلہاڑی لے کر گھر کے پیڑ کو کاٹ کر باہر پھینک دیا۔ اس واقعہ کے ایک ہی ہفتہ بعد ایک روز وہ شوہر اپنے کام سے جلدی فارغ ہو کر اپنے نارمل وقت سے کچھ پہلے ہی گھر آ گیا، تو کیا دیکھتا ہے، کہ اس کی وہی “پارسا” بیوی اپنے عاشق کے بانہوں میں لپٹی ہوئی سو رہی ہے! یہ ناقابل یقین دلخراش منظر دیکھ کر اس نے مزید کچھ نہیں کیا، بس گھر سے اپنی بعض ضروریات کا سامان لیا، اور اپنا گھر اور بستی چھوڑ کر نکل پڑا، اور چلتے چلتے ایک دوسرے شہر تک پہنچ گیا، جو بادشاہ وقت کا اپنا شہر تھا، وہاں دیکھا؛ کہ امیر شہر کے محل کے ارد گرد کافی لوگ جمع ہیں، یہ منظر دیکھ کر جب اس نے اس بھیڑ کا سبب پوچھا، تو لوگوں نے بتایا: کہ بادشاہ سلامت کی تجوری چوری ہو گئی ہے۔ اسی دوران اس بھیڑ سے ایک ایسے شخص کا گزر ہوا، جو پورے پیر کے بجائے صرف اپنی انگلیوں کے اطراف کے بَلْ بہت سنبھل سنبھل اور بچا بچا کر انتہائی احتیاط سے چل رہا تھا، اس آدمی نے جب اس شخص کے بارے میں پوچھا: کہ یہ صاحب کون ہیں؟ تو لوگوں نے بتایا: کہ اس شہر کے دینی گرو، مذہبی پیشوا اور شیخ صاحب ہیں، جو اپنی انگلیوں کے بَلْ محض اس لئے چلتے ہیں، تاکہ ان کے پاوں کے نیچے کوئی چیونٹی آکر کہیں دب نہ جائے، اور اس کی موت ہو جائے، اور اس طرح وہ نا حق قتل نفس کے عظیم گناہ کے مرتکب نہ ٹھہر جائیں۔ شیخ صاحب کے متعلق لوگوں کا یہ جواب سن کر اس آدمی نے فورا اور برجستہ کہا: اللہ کی قسم! مجھے بادشاہ کے خزانہ اور تجوری کے چور کا پتہ حتمی مل گیا ہے، مجھے اسی وقت بادشاہ کے پاس لے چلو، بادشاہ کے پاس پہنچ کر ابتدائی حال چال کے بعد اس آدمی نے عرض کیا: بادشاہ سلامت! آپ کی تجوری کا چور کوئی اور نہیں، بلکہ آپ کے اس شہر کے دینی گرو اور مذہبی پیشوا شیخ صاحب ہی ہیں، یہ سن کر بادشاہ کو سخت حیرت وتعجب ہوا، جس پر وہ آدمی مزید یقین دہانی کراتے ہوئے کہنے لگا: کہ اگر مجھے اس الزام میں جھوٹا پایا جائے، تو میرا خون معاف، اور اگر اس الزام کے بدلے میری گردن بھی اڑا دی جائے، تو بھی میں اس کیلئے مکمل طور پرتیار ہوں۔ آخر کار بادشاہ نے اس کا اتنا پختہ جواب سن کر شیخ صاحب کو فورا دربار میں حاضر کرنے کا حکم دے دیا، انہیں دربار میں لایا گیا، پوچھ تاچھ اور تحقیق کے بعد آخر کار شیخ صاحب نے اپنا جرم قبول، اور تجوری چوری کا اعتراف کر ہی لیا۔ شیخ کے اقرار جرم کے بعد بادشاہ اس شخص سے کہنے لگا: تم یہ بتاو کہ آخر تم کو کیسے پتہ چلا، کہ چور یہی شیخ صاحب ہیں، جب کہ وہ اپنی ظاہری شکل وصورت اور وضع قطع سے انتہائی نیک، صالح، اور پارسا دِ کْھتے ہیں؟ بادشاہ کے اس سوال کا جو قیمتی جواب اس آدمی نے اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں دیا، وہ جواب یہ تھا کہ: “جب بھی اظہار پارسائی میں مبالغہ آرائی ہو رہی ہو، اور جہاں بھی نیکی اور فضائل کے بیان میں حد سے زیادہ د کھاوا نظر آئے، تو آپ فوراً سمجھ لیں، کہ وہاں ضرور کسی بڑے جرم اور گناہ کو چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے” سچ ہے کہ صرف: لباسِ پارسائی سے شرافت آ نہیں سکتی شرافت نفس میں ہوگی تو انساں پارسا ہوگا کردار کو کپڑوں میں چھپا رکھا ہے تو نے کپڑوں کی طرح تو تیرا کردار نہیں ہے اللہ رب العزت ہم سب کو ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کو بھی سنوارنے کی نیک توفیق، نیز ہمیشہ سچی پارسائی اور حقیقی تقویٰ نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔