ہمارے ملک میں اکثر لوگوں کو یہ اچھے سے پتا ہے یا یہ گمان ہے کہ طاقتور کو یہاں کم ہی سزا ہوتی ہے اور اگر بات ہو ججز کی تو تاریخ میں اس طرح کے فیصلے پہلے نہیں آئے کہ جس میں ایک جج اور اس کی بیوی کو سزا ہوئی ہو۔
چند دن پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ضلعی اور سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کو طیبہ تشدد کیس میں ایک سال کی سزا سنائی۔ اس کیس نے دسمبر 2016 میں لوگوں کی توجہ حاصل کی۔ او ایس ڈی جج اور ان کی اہلیہ کو بچی کے ہاتھ جلانے ، مارنے پیٹنے ، اسٹور روم میں بند رکھنے اور بھیانک نتائج کی یقین دہی کروانے پر پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی کیا گیا۔
اگر آپ کراچی ، لاہور ، اسلام آباد یا فیصل آباد کے متمول طبقے میں جانے کا موقع ملے تو شربت پیش کرنے یقیناً یہی ملازم آپ کے پاس آئینگے ۔ آپ ان کو فرش رگڑتے اور برتن دھوتا بھی دیکھتے ہیں۔ ان سے ایسے کام بھی کروائے جاتے ہیں جو کم عمر ملازمین سے کروانا خطرناک ہے۔ جیسا کہ کپڑے استری، کچن میں گرم برتن، ٹوائلٹ کی صفائی کے لیے کیمکل اور تیزاب۔ طیبہ کیس کی طرح انہیں چھوٹی سی لغزش پر یونہی مارا پیٹاجاتا ہے۔
شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس میں ان لوگوں کو بہت ہی حقیر جانا جاتا ہے۔ انہیں بری طرح ڈانٹا جاتا ہے ۔ خریداری کرتے وقت یا کھانے کے دوران انہیں سامان کی نگرانی یا روتے بچوں کو چپ کروانے کے لیے الگ بیٹھا دیا جاتا ہے۔ طیبہ تشدد کیس کو تب شہرتِ دوام ملی جب او ایس ڈی جج اور ان کی اہلیہ ماہین نے ایک بچی پر مبینہ تشدد کیا جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔
طیبہ کو 28 دسمبر 2016 میں واضح زخمی حالت میں اس کے مالکان سے نہ صرف چھڑوایا گیا جبکہ ایک دن بعد اس کے مالکان کے خلاف کیس بھی درج کرلیا گیا۔ ایسے تشدد نئے نہیں لیکن ایسے کیسز کا سوشل میڈیا کے زریعے لوگوں کے سامنے آنا بالکل نیا ہے۔ معاشرتی تنظیمیں ان واقعات کو لوگوں کے سامنےلانے کے لیے حتیٰ الامکان حد تک کوشاں ہیں۔ ایلیٹ کلاس سے ہونے کے باوجود پولیس بھی اب بغیر حیل و حجت کے رپورٹ درج کرلیتی ہے۔
چند دن پہلے سنائی جانے والی سزا سے بہت لوگ حیران تھے اور بہت لوگ خوش بھی کہ آخرکار اس ملک میں کسی طاقتورکو سزا ہوئی، بچی پر ظلم کرنے کی وجہ سے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس میں سابق جج راجا خرم علی اوران کی اہلیہ کو سنائی گئی ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا معطل کردی. امید ہے اس کیس میں سچ جلد سامنے آئے گا اور معصوم بے گناہ بچی پر ظلم کرنے والوں کو سزا ملے گی.
جہاں سیاستدان، سماجی کارکن اس مسلئے کے حل کے لیے بحث و مباحثے کر رہے ہیں ،وہیں یہ بچے نہ صرف اپنے مالکان بلکہ والدین کے ہاتھوں کوئی مناسب قانون نہ ہونے کے باعث مظالم کا شکار ہیں۔ مختصراً یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ ایک ایک بچے کی حفاظت ان کے ذمہ ہو۔ جبکہ یہ ہر ایک شہری کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ مستقبل کے معماروں نے محض سانس نہیں لینا بلکہ جینا بھی ہے۔