counter easy hit

یہ بچے بھی ہمارے ہیں

مردوں سے زیادتی کی شکایات بانسبت خواتین کے کم ہیں۔ چونکہ ان مسائل پرگفتگو نہیں کی گئی، اس لیے ان مسائل کا حل بھی تلاش نہیں کیا گیا۔ ایسے مظلوموں کی بحالی کا کوئی ادارہ بھی موجود نہیں۔ ایسے بہت سے کیسز ہیں جن میں خاندانوں کو بھی زیادتی کے بارے میں خبر نہیں ہوتی۔

میرے اپنے شہر فیصل آباد میں بچوں سے زیادتی کرنے والا ایک گروہ چند دن پہلے منظرِعام پر آیا جو پانچ سے آٹھ سال کے چھوٹے لڑکوں سے زیادتی کرتے اور ان کی نازیبا ویڈیوز بنا کر ان کے خاندان کو بلیک میل کرتے۔ زیادتی کا شکار ہونے والے ایک بچے نے بتایا کہ بہت سے بچے اس زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور یہ بات اب کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

بچے نے مزید بتایا کہ وہ پانچ میں سے تین ملزموں کو جانتا ہے اور اسے یقین ہے کہ اور بھی لوگ اس گھناؤنے دھندے میں شامل ہیں۔ بچوں سے تحقیق کرنے پر مزید دلخراش حقائق سامنے آئے۔ پاکستان میں مردوں سے جنسی زیادتی ایک ناقابلِ فہم بات سمجھی جاتی ہے۔ عمومی رائے ہے کہ مرد نقصان پہنچاتا ہے تاہم اس کو کوئی نقصان نہیں ہوسکتا۔ رخسانہ صدیقی “وار ” کی ایک افسر کہتی ہیں کہ زیادتی کا شکار شخص اور اس کے گھر والے کبھی اس بات کی تشہیر نہیں ہونے دیتے کیونکہ یہ ان کی عزت کا معاملہ ہوتا ہے۔

اٹھارہ سالہ نوجوان اپنے والد کے دشمنوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار بنا۔ اس کے خاندان نے عوامی سطح پر اس واقعے کی تردید کردی تاہم “وار” نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اس واقعے کی کسی قیمت کی تشہیر نہیں چاہتے، کیونکہ یہ ان کی عزت کا مسلئہ ہے۔ پاکستان میں ہم مردوں کو نہایت مختلف نظر سے دیکھتے ہیں، ہم ان سے کسی بھی قسم کی تکلیف کا اظہار کرنے کی بھی توقع نہیں رکھتے۔ مردوں سے جنسی زیادتی ان کی عزت وحرمت کا مسلئہ بن جاتی ہے، اس لیے کسی بھی قانونی چارا جوئی سے پرہیز کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مرد کے ساتھ بھی جنسی زیادتی ہو سکتی ہے، اور اس طرح کے اکثر واقعات پر لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ اس کا اظہار کس طرح کریں۔

یہ واقعات ایک شہر تک محدود نہیں، بلکہ بہت سے شہروں میں وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں جن کو کبھی رپورٹ نہیں کیا گیا۔ ایک چودہ سالہ بچے کو راولپنڈی میں جنوری 2018 میں جمعے کے روز تب اغوا کیا گیا جب وہ مذہبی اجتماع کے لیے جارہا تھا۔ اس کے بعد مغوی کو قریبی کھیتوں میں لے جا کر گن پوائنٹ پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جنوری 2018 کے اواخر میں بھی عمر کوٹ میں ایک بچے کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ جنوری 2018 میں ہی ایک بارہ سالہ بچے کو خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں پانچ آدمیوں نے اغوا کے بعد اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ 11 سالہ بچے کو فروری 2018 میں سکھر میں زیادتی کے بعد ہسپتال پہنچایا گیا۔ کراچی گلشنِ اقبال کے ایک کوچنگ سنٹر میں سات سالہ بچے کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ فروری 2018 میں ہی مانگا منڈی کی مسجد کے ایک عالم نے بچے سے زیادتی کی جس کو گرفتار کرلیا گیا۔

’’ساحل‘‘ نامی ایک این جی او کے مطابق یہ اعداد و شمار اصل صورتحال سے مختلف ہے۔ 4139 بچوں کو 2016 میں ، 1764 بچوں کو یکم جنوری سے 30 جون 2017 تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ زیادتی کے شکار بچوں میں سے 1067 لڑکے تھے۔ 12 لڑکے لڑکیاں 2017 میں قصور میں ہی زیادتی کا شکار بن چکے۔ جس طرح معصوم بچیاں ہماری ہیں، اسی طرح یہ معصوم بچے جن کو ہوس کے مارے درندے اپنی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں، وہ بھی ہمارےہیں۔ این جو اوز اور حکومت کو چاہیے کہ ان بچوں کو بھی تحفظ دیں اور ان کی آواز بنیں۔