لاہور (ویب ڈیسک) یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو سننے میں افسانہ لگتی ہے لیکن یہ افسانہ ہی آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ دنیا کے صرف آٹھ امیر لوگ پوری دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت کے مالک ہیں۔ کچھ عرصہ قبل یہ حقیقت آکسفورڈ کمیٹی (آکسفم) نے ورلڈ اکنامک فورم کے
نامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ سالانہ اجلاس میں پیش کی تو وہاں موجود کئی عالمی رہنما دنگ رہ گئے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہو رہا ہے اور اگر اس بڑھتے ہوئے فرق کو روکا نہ گیا تو معاشی ناہمواریاں دنیا میں سماجی و سیاسی مسائل کو مزید بڑھائیں گی۔ ایک طرف دنیا میں غربت اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے دوسری طرف ارب پتی افراد کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ارب پتی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس کے پاس ایک سو کروڑ روپے یا ایک سو کروڑ ریال ہیں وہ ارب پتی کہلائے گا۔ عالمی معیار کے مطابق جس کے پاس ایک سو کروڑ ڈالر ہے وہی ارب پتی کہلانے کا حقدار ہے کیونکہ عالمی معیشت ڈالر سے وابستہ ہے۔ 2008ء میں دنیا بھر میں 1125ارب پتی افراد تھے لیکن 2018ء میں ارب پتی افراد کی تعداد 2754ہو چکی ہے۔ سب سے زیادہ ارب پتی امریکہ میں ہیں جن کی تعداد 680کے قریب ہے۔ دوسرے نمبر پر چین ہے جہاں 338ارب پتی ہیں اور تیسرے نمبر پر بھارت ہے جہاں 101ارب پتی موجود ہیں۔ مجھے ارب پتی افراد کی فہرست میں کسی پاکستانی کی تلاش تھی لیکن اس فہرست میں کوئی پاکستانی نہیں ہے۔ ترکی میں 29، سعودی عرب میں 10، متحدہ عرب امارات میں سات، کویت میں چار، لبنان میں چار اور اومان میں دو ارب پتی موجود ہیں یہاں تک کہ نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی ایک ایک ارب پتی موجود ہے لیکن پاکستان میں ایک بھی نہیں شاید پاکستان کے امیروں نے اپنی دولت کہیں دور چھپا رکھی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی دولت ناجائز ذرائع سے کمائی ہے لیکن آکسفورڈ کمیٹی کہتی ہے کہ دنیا کے اکثر ارب پتی ٹیکس چور ہوتے ہیں۔ ٹیکس چوری وہاں زیادہ ہوتی ہے جہاں کرپشن زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں کرپشن زیادہ ہوتی ہے وہاں کرپٹ لوگ کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں۔ کرپٹ ممالک میں سب سے اوپر شمالی کوریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان، شام، یمن، سوڈان، لیبیا، افغانستان، وینزویلا، عراق، انگولا اور کانگو ہیں۔ بنگلہ دیش 145، پاکستان 116اور بھارت 79ویں نمبر پر ہے۔ جہاں ارب پتی افراد کی تعداد زیادہ ہے وہاں کرپشن بھی کم ہے اور ان ممالک میں غریبوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے جس کی بڑی مثال بھارت ہے۔ کچھ سال پہلے تک دنیا میں سب سے زیادہ غریب بھارت میں تھے
لیکن آج سب سے زیادہ غریب نائیجیریا میں ہیں۔ جس ملک میں ریاست کاروباری طبقے کو قانون کے مطابق دولت کمانے میں معاونت فراہم کرتی ہے وہاں زیادہ سے زیادہ ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں اور غربت کم ہوتی ہے۔ جہاں ریاست قانون کے نام پر خود لاقانونیت پھیلاتی ہے وہاں کاروبار فروغ نہیں پاتا اور آہستہ آہستہ کاروباری طبقہ اپنا سرمایہ کہیں اور لے جاتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی وجوہات جاننے کے لئے آپ ایڈورڈ گنبزکو پڑھ لیںیا آرنلڈ ٹائن بی کی تحقیق پر غور کریں یہ مغربی مفکرین ابن خلدون کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ جب ایک طاقتور اقلیت کسی ملک کے وسائل پر قابض ہو جاتی ہے تو دیگر طبقات میں بے چینی جنم لیتی ہے اور وہ حاکم اقلیت کے ساتھ برسرپیکار ہو جاتے ہیں اور یوں وہ انتشار پھیلتا ہے جو کسی قوم کے زوال کا باعث بنتا ہے۔ ذرا غور کریں۔ پاکستان میں انتشار کی وجوہات کیا رہی ہیں اور آج ہم ایک دوسرے سے کن وجوہات کی بناء پر دست و گریبان ہیں؟ کیا پاکستان میں قانون اور آئین سب کے لئے برابر ہے؟ کیا پاکستان میں حکمران طبقہ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہیں بناتا؟ پاکستان کے جس صوبے میں سب سے زیادہ معدنی وسائل ہیں وہ صوبہ سب سے زیادہ پسماندگی کا کیوں شکار ہے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات کے جواب نہ ملیں تو انتشار پھیلتا ہے۔ یہ انتشار طاقتور حکمران طبقے کی ناانصافیوں سے پھیلتا ہے وہ اپنی ناانصافی پر پردہ ڈالنے کے لئے انصاف مانگنے والوں کو باغی اور غدار قرار دیتے ہیں اور یوں ایسی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے جسے حکمرانوں کی طاقت روکنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ ذرا تکلیف کیجئے اور اپنی پارلیمنٹ پر نظر دوڑایئے۔ عوام کے نمائندہ منتخب ایوانوں میں امیروں کی اکثریت ہے۔ یہ امیر پارٹیاں بدل بدل کر حکومت میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی وفاداری اقتدار سے ہے، عوام سے نہیں۔ ریاست وفاداریاں بدلنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اوریوں عوام ریاست کے اداروں پر اپنا اعتماد کھو دیتے ہیں۔ اس پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی کرپشن کے الزامات پر ہوتی ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ کرپشن کے الزامات دونوں پر ہیں۔ ان کی لڑائی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی پر ہوتی ہے، اسٹینڈنگ کمیٹیوں پر ہوتی ہے اور گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر ہوتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کبھی کبھی کشمیریوں کے حق میں قرار داد منظور کر لیتے ہیں لیکن عوام کے اصل مسائل پر گفتگو کرتے ہیں نہ قانون سازی۔ ان کی اس لاپروائی کا فائدہ بیورو کریسی اٹھاتی ہے اور وہ جھوٹ بول بول کر حکمرانوں کو بے وقوف بناتی ہے ۔ وہ ادارے جن کا کام عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے یا احتساب کرنا ہے جب وہ جھوٹ بول کر حکمرانوں کو خوش کرنے لگیں تو انتشار کم ہو گا یا زیادہ؟