تحریر : میر شاہد حسین
میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب زلزلے آتے ہیں تو لوگ اپنے گھروں سے باہر کیوں نکل آتے ہیں؟ کیا موت سے بھی کوئی فرار ممکن ہے؟ اور پھر ہم گھروں سے نکلنے کیلئے زلزلے آنے کا ہی انتظار کیوں کرتے ہیں ؟ آفت کے آنے سے پہلے اس کا سدباب کیوں نہیں کرتے؟ اﷲ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن جانور ہم سے پہلے آنے والی آفت کا پتا دے دیتے ہیں۔ چیونٹیوں کو دیکھتا ہوں وہ ہر وقت رزق کی تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھرتی ہیں۔
کھانا کھا کر سونہیں جاتیں بلکہ رزق کا ذخیرہ جمع کرتی رہتی ہیں اور پھر جب کبھی بارش ہوجائے یا کوئی برا وقت آجائے تو ان کے ٹھکانوں میں وافر مقدار میں ذخیرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ لیکن ہمیں تو اس بات کی توفیق نہیں ہوتی کہ صبح سویرے ہی اٹھ جائیں کجا اس کے کہ اس رب کا شکر ادا کریں کہ اس نے نیا دن دیکھنا نصیب کیا۔ پھر پرندوں کو دیکھتا ہوں وہ صبح اٹھ کر پہلے شکر ادا کرتی ہیں پھر رزق کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہیں اور جب شام کو واپس آتی ہیں تو کسی کا پیٹ خالی نہیں ہوتا۔ ہم گھر بیٹھ کر بس شکوہ شکایت ہی کرتے ہیں۔ اگر کام پر بھی جائیں تو دل لگا کر کام نہیں کرتے۔
بادل نخواستہ کام سرانجام دیتے ہیں اس کو اپنی ڈیوٹی اور فرض سمجھ کر انجام نہیں دیتے۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم آگے نہیں بڑھ رہے۔ ہم کیوں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہم سب اس معاشرہ کا حصہ ہیں ہمیں وہی کچھ ملے گا جو ہم اس معاشرہ کو دیں گے۔ کانٹے بو کر پھولوں کی امید رکھتے ہیں۔ دوسروں کے لیے وہی چیز پسند نہیں کرتے جو اپنے لیے کرتے ہیں پھر کوئی کیوں آپ کے لیے اچھا چاہے گا۔ ہم اچھے دوستوں کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن خود اچھا دوست نہیں بنتے۔ اپنے بچوں کو اچھا انسان دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خود اچھا انسان بن کر نہیں دکھاتے۔
میں ہر ایک پر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں لیکن مجھے خود پر تنقید پسند نہیں شاید مجھ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ میں ہر ایک کے ساتھ مذاق کرتا ہوں لیکن جب میرے ساتھ کوئی مذاق کرے تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں اپنی ساری توجہ اپنے جسم اور چہرے کی خوبصورتی پر رکھتا ہوں لیکن میرے اندر چھپے داغ اور دھبے مجھ سے اوجھل رہتے ہیں۔ میں اپنے جسم کو روز کھلا پلا کر صحت مند اور توانا بناتا ہوں لیکن جسم میں چھپی روح کو بھوکا اور پیاسا رکھتا ہوں۔ اس کی ضرورتوں سے میں کلی ناواقف ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سب کچھ پاس ہونے کے باوجود بے سکون رہتا ہوں۔
سوچتا رہتا ہوں لیکن سمجھ کر بھی کچھ سمجھ نہیں پاتا۔ وقت ہے کہ گزرتا جاتا ہے اور میں اسی سوچ میں رہتا ہوں کہ ابھی بہت وقت پڑا ہے ۔ وقت بھی کتنا ظالم ہے گزر کر پھر لوٹ کر نہیں آتا۔ برف کی مانند پگھلتا ہی چلا جاتا ہے اور میں یادوں کی صورت ماضی کا قصہ بنتا چلا جاتا ہوں۔ میرے خیال اور میری سوچ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے دوست ، میرے عزیز، میرے ساتھی ایک ایک کرکے اس دنیا سے گزرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ میں اکیلا رہ جاتا ہوں۔ اب میرے پاس سوچنے کا بہت وقت ہے لیکن کرنے کی ہمت نہیں کیونکہ میرے جسم میں ریشہ آگیا ہے۔
میرا جسم اب میرا ساتھ نہیں دیتا۔ عمر بھر جس کا میں نے خیال رکھا تھا ،جس کے لیے اپنے رب کو بھول گیا تھا وہ اب میرا ساتھ نہیں دیتا۔ ایسے میں مجھے خدا کی یاد آنے لگتی ہے اور وہ مجھے بہت قریب دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن عمربھر کے گناہوں کا بوجھ اور شرمندگی اب مجھے اس طرف مائل نہیں ہونے دیتی۔ میں سوچتا ہوں اس وقت ہمیں خدا کیوں یاد آجاتا ہے؟ اب مجھے راتوں کو نیند نہیں آتی اور میں اکثر لیٹا سوچتا ہی رہتا ہوں۔ مجھے یہ دنیا اچھی نہیں لگتی جہاں میں نے اک عمر گزاری تھی۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ مجھے سوچنا کیا ہے اور میں سوچ کیا رہا ہوں؟کیا آپ نے کبھی ایسا سوچا ہے۔
تحریر : میر شاہد حسین