تحریر : شاہ بانو میر
بڑے بڑے مفکر لکھتے ہیں کہ ان کے کوئی بابا جی تھے اور بابا جی نے یہ کہا وہ کہا جو بابا جی کہتے ہیں وہ بات بھی سچ ہوتی ہے اور ہدایت والی ہوتی ہے۔ مگر میں ہمیشہ ہی یہ سوچتی ہوں کہ وہ انسان عام ہوں گے جو علم و فضل پر کمال حاصل کر کے اللہ کے اتنا قریب ہو گئے کہ ان کی بات کو ماننا سننا بڑے بڑے عالم مصنف اعزاز سمجھتے ہیں اگر تمام ایسے بزرگ بابا جی اپنے عقید تمندوں کو صرف یہ کہ دیں کہ بچو جس قرآن و سنت نے مجھے تم سے تعظیم دلوائی ہے وہ تمہارے گھر میں بھی موجود ہے مجھ سے پوچھنے کی بجائے ایک مسلمان ہونے کا فرض ادا کرو اللہ کی بے پناہ نعمتوں کا شکر ادا کرو اس کتاب کو خود کھولو اسی سے رجوع کرو اگر بابا جی ہمیشہ ایسا کہتے تو آج خلقِ خُدا گھر میں موجود دنیا کی سب سے بڑی عظیم الشان درسگاہ قرآن سے مستفید ہوتی بلکہ از خود ترجمہ پڑھ کر کسی اپنے جیسے انسان سے مرعوب نہ ہوتی۔
سوچئے آخر ہم جیسے اعضاء رکھنے والے آج بھی ہم میں الگ کیوں قابل احترام کیوں؟ وجہ ہے ان کی سچی عبادت سچا رشتہ براہ راست اللہ سے تعلق قرآنی اسباق کو سنت کو سننا سمجھنا پڑھنا پھر عمل کی کوشش کرنا ۔ ان کو نیک محترم بنا گیا ۔ لوگو !! کہاں بھٹکے جاتے ہو ؟ اس قرآن و سنت کے سوا کوئی”” تیسرا در”” نہیں جہاں سے ہدایت اور مکمل ہدایت ملے گی۔
لوٹ آؤ
کھول لو قرآن کو
سمجھ لو سنت کو
فلاح پا جاؤ گے
صراط المستقیم سے پُلِ صراط کو بآسانی عبور کرنے کیلیۓ صرف اور صرف یہی راستہ ہے۔
سب کچھ یہیں چھوڑ گئے پہلے ہم سے ہم بھی سب یہیں چھوڑ کر اعمال لے کر بارگاہ الہیٰ میں حاضر ہوں گے ۔ وہاں اللہ نے اپنے قرآن کا سوال کرنا ہے ضابطہ حیات ہے کسی بزرگ کی تعلیمات کا نہیں پوچھنا کہ اُن سے کیا ملا؟ انعامات نعمتیں تو اللہ دے اور پوچھیں کسی انسان کو؟ ان بزرگوں کو اللہ پاک نے وہی کچھ عطا کیا مگر وہ فرق سمجھ گئے اور انہوں نے اس رنگین عارضی قیامگاہ کی رونقوں کو مسترد کر دیا اور ہمیشگی والی عافیت والی فلاح والی زندگی کیلئے عمل شروع کر دیا عبادات قرآن پاک پر عمل یوں ہمارے درمیان ہمارے جیسے ہی اللہ کے بندے بزرگی اختیار کرتے ہوئے اپنی عبادات کی کثرت سے بزرگ کہلائے۔
کیا قرآن پاک ہمارا نہیں؟ ہمارے گھروں میں موجود نہیں؟ کیا ہمیں اسکو دور سے تعظیمی انداز سے قدرے اپنے قریب نہیں رکھنا چاہیے ۔ اگر ہم یہ کر گئے اور زندگی میں سیرت النبیﷺ اور اللہ کے پیغامات ہدایات پر مبنی کتاب ہدایت کو کھول کر خود پر محنت کر کے اس کو پڑھ گئے تو انشاءاللہ بزرگ نہ بن سکیں مگر اللہ کے بیحد پیارے پسندیدہ بندے ضرور بن جائیں گے جن پر وہ انعامات کرے گا یہ طے شدہ بات ہے عبادت ریاضت کی کثرت کسی انسان کو اللہ کی خاص عنایت سے بزرگی کا درجہ تفویض کرتی ہے آئیے !! ہمارے بزرگوں نے جیسے رب کی مان کر عظمت کما لی ۔ ہم بھی آج سے ان کی پیروی کرتے ہوئے انہی وسائل سے رہنمائی حاصل کر کے سب کیلئے نہیں کم سے کم اپنے اپنے گھر کیلئے وہ اصل پیغامات سمجھ لیں جان لیں اس قرآن سے جن کی وجہ سے زندگیاں تبدیل ہوتی ہیں کامیابیاں مقدر بنتی ہیں۔
ہمارے بزرگان کو اپنے تمام پیرو کاروں کوکہنا ہوگا کہ بچے !! میں مسئلہ بیان کر دیتا ہوںلیکن قرآن پاک تمہارے لیۓ اترا ہے اسے کھولو پڑھو عمل کرو اور انعام حاصل کرو !! دنیاوی تعلیم آپکو باشعور نہیں بنا سکتی جتنا شعور تہذیب انسانیت رہنمائی ہدایت نرمی مضبوطی بہادری آپکو صرف یہ ایک کتاب اور اس پر عمل پیرا سنت نبویﷺ سے گھر بیٹھے آپ سیکھتے ہیں ۔ صحابہ کرام صرف اس کتاب کو سنتے تھے اور عمل میں آپﷺ کی سیرت مبارکہ ملاحذہ کرتے تھے ۔ وہ کیسے تبدیل ہوئے بھوک افلاس میں کمزور ناتواں نحیف وجود جو اہل شہر کیلیۓ تمسخر اڑانے کا باعث تھے ۔ قید و بند کی صعوبتوں میں رہنے والے اسی قرآن کی بدولت بوقت ضرورت جب اسلام کو خطرات لاحق ہوئے تو کیسے صحرا نشین اٹھے اور کفر کے گہرے بادل ہٹا دیے ۔ جہالت کی تاریکی زندگی سے نکال پھینکی اور بہترین لوگ قرار پائے ۔
ان کی تبدیلی کا ماخذ کیا تھا؟ یونیورسٹیاں کالج سکول؟ نہیں صرف اور صرف قرآن پاک مکمل ضابطہ حیات جس پر عمل پیرا ہو کر وہ بزرگی پا گئے ۔ تاریخی انقلاب لے آئے اور کامیاب پڑھے لکھے اسلام کو ہمارے لئے بزریعہ قرآن مشعل راہ چھوڑ گئے ۔ سوچئے دل کا سکون روح کی بے کلی زندگی کے خود ساختہ الجھاؤ سب ختم دل و دماغ میں سکون اور سرور کے ساتھ نور ہی نور روشنی ہی روشنی اللہ کے ذکر سے ہے نبیﷺ کی فکر سے ہے ۔ کیا نہیں چاہیۓ؟
تحریر : شاہ بانو میر