تحریر: شاہ بانو میر
آنٹی جی!! مجھے اپنے پاپا کو ہرانا ہے ٬ ان کی سوچ کو ہرانا ہے ٬ اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم لوگ نظام کی تبدیلی کا نعرہ لائے ہیں تو انشاءاللہ بغیر سودے بازی کئے اس ملک کو نئی سیاست سے متعارف کروائیں گے 2013 میں پاکستان کی ایک شادی کی تقریب میں کوئی خاتون اس بچے کو میرے پاس لائیں کہ میرا بیٹا بھی آپ والی سیاسی جماعت میں ہے٬ وہ دھواں دھار انداز میں بول رہا تھا سچائی کا نور تھا عزم کی چاندنی تھی اسکے چہرے پر٬ پاپا جیسی سیاست کی اب اس ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے٬ پاپا سے آخری لڑائی ہوئی تھی تو پاپا نے کہا تھا۔
یاد رکھنا نیا نو دن پرانا سو دن ہوتا ہے “” تم لوگ ابھی سیاسی بچے ہو”” ایک نہ ایک دن ہم استادوں کو مانو گےاور خود یہ خواہش کرو گے کہ ہم آپ کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں”” پاپا یہ بھول جائیں وہ مک مکا کے دور اب مُک گئے ٬ ہمارا لیڈر اسی لئے تو ہمارا لیڈر ہے وہ نہ بکتا ہے نہ جھکتا ہے ٬ (مفاہمت ) وہ بھول گیا٬ اس کی باتوں نے جوش نے بہت متاثر کیا اُن دنوں لگ رہا تھا کہ واقعی اس ملک کا ہر جوان جس رہنما کے پیچھے کھڑا ہے اس تند خُو لشکر کا سالار بپھرا ہوا سمندر بنا بیٹھا ہے ایک ایک سیاستدان کو جس طرح بے خوفی سے حقائق کے ساتھ غلط ثابت بیان کررہا ہے کسی اور میں ہمت نہیں کہ سیاست میں رہ کر ایسا کر سکے۔
نوجوانوں نے اس رہنما کو تحفہ خداوندی سمجھتے ہوئے ملک کے ہرکونے سے شمولیت کی اور جلسے کی رونق کو بڑہایا ٬ کوئی سائیکل بیچ کر کوئی ہاتھ کی گھڑی بیچ کر پیدل میلوں طے کرتا ہوا پنڈال میں گیا٬ نیا انداز تھا نیا جوش و ولولہ سب دیکھ رہے تھے٬ یہ رہنما نئی نسل کے ساتھ نیا پاکستان بنانے نکلا٬ ان بچوں کو نہ بھوک کی پرواہ نہ پیاس کی 1947 جیسا منظر دیکھا جا سکتا تھا ٬ تب قیام پاکستان تھا آج استحکام پاکستان کا نعرہ تھا جلسہ اعلان ہوتا تو گویا سیاسی ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا ٬ لاکھوں کی تعداد اور عورتوں کی خصوصی شرکت ہمیشہ اس بچے کی یاد دلا جاتی جو کہ گیا تھا کہ امی جان کو پاپا نے بہت روکا لیکن امی جان نے کہا کہ بہت سہ لی یہ پرانی مار دھاڑ لوٹ مار کی سیاست میں بیٹے کے ساتھ جاؤں گی غریب کیلئے جس کو بھوک سے آپ سب مار رہے ہیں۔۔
بلکہ بہنوں کو بیٹیوں کو نند بھاوج ساس کو بھی لے کر جاؤں گی آپ کو چاہیے کہ سچے پاکستانی ہیں تو اپنے بیٹے کا ساتھ دیں چھوڑ دیں غلط لوگوں کو ٬ ہم سب ضرور جائیں گی ماں پہلی بار بیٹے کے ساتھ شوہر کے سامنے آن کھڑی ہوئی انقلاب کی دھمک قریب تھی کہ غیر محسوس انداز میں للکار نے پُکار کی صورت اختیار کی بے باک انداز محتاط ہوا ٬ سیدھے صاف معاملات سیاسی بننے لگے٬ یکے بعد دیگرے غریبوں کی جماعت عام نوجوان کو آگے لانے والے نوجوانوں کو پرے دھکیل کر ہر دولتمند کو جلسوں کی زینت بنانے لگی٬ وہی روایتی سیاسی فارمولہ مگر یہاں فیل ہو گیا نوجوان اسی سوچ کے خاتمے کیلئے نکلے تھے ٬ وہ بد دل ہو گئے دل ٹوٹ گئے اور سونامی طوفانی رخ سے مفاہمتی سکوت بن گئی٬ آج تین سال بعد منظر یکسر تبدیل ہوگیا۔
قدرت اصل بے باک لیڈر کو جنرل راحیل شریف کی صورت سامنے لائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کیلئےملک گیر آپریشن ضرب عضب کے ساتھ شروع ہوا ٬ تمام غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ملے ہوئے ملک دشمن سیاستدانوں کو بے نقاب کیا ٬ ان کے زرخرید قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں پہلی بار کس دیا گیا کوئی دباؤ کوئی سفارش قبول نہیں کی گئی ٬ پہلی بار ملک تبدیل ہونے لگا کراچی میں امن آنے لگا ٬ ملک کی سرحدوں کو سِیل کیا جانے لگا٬ ملک کے چپے چپے کو جانبازوں نے جان دے کر پاک کیا٬ یہ سب بہت ضروری تھا چائنہ کاریڈور کیلئے جو قوم کے شاندار مقتقبل کا اصل پیش خیمہ ہے٬ سول ملٹری ہم آہنگی ملک کو نئے ترقیاتی دور میں لانے لگی ٬ یہی وہ موڑ ہے جس پر تمام سیاسی سوچیں متفق ہیں کہ اگر یہ منصوبہ نوز دور میں کامیاب ہوگیا۔
تو ان کی سیاست کا 2018 میں کہیں نام و نشان نہیں ہوگا ٬ یہ بالکل کمزور سوچ ہے ٬ مگر اسے ایک ناکام سیاستدان نے خوب بڑھا چڑھا کر سب کے سامنے یوں پیش کیا کہ سب یکجا ہوکر کسی صورت نواز کو سامنے سے ہٹا دیں ٬ ورنہ ان کی سیاست کی خیر نہیں یہیں سے طاقتور رہنما کو غیر دانشمند دوست نے مشورے دیے مستقبل کا خوف دلا کر اس کی فطرتی بہادری کو مصلحت میں چھپا کر اپوزیشن کے ساتھ کھڑا ہونے پر آمادہ کر لیا٬ آج ہر تحریکی نوجوان اپنے قائد کی اس سوچ سے اپنے ہی گھر میں اپنے پاپا سے ہار چکا ہےپاپا کی بات سچ ثابت ہو گئی کہ ان کی پارٹی کے سامنے ابھی سیاسی بچے تھے٬ دوسری جانب نیم مردہ بڑی سیاسی جماعت کو وہ طاقت مل گئی جو اسےچاہیۓ تھی ٬ آج ٹی وی پر ان کے رہنما فرما رہے تھے٬ کرپشن کے ایشو پر جو بھی آواز اٹھائے گا وہ ہمارے ساتھ ہوگا٬ ایک کنٹینر پر کھڑے بھی ہو سکتے جو ہمارے ساتھ آنا چاہے٬ “”یہ پارٹی تو کچھ عرصہ قبل بنی ہم تو بڑی سیاسی جماعت ہوتے ہوئے عرصہ دراز سے قانونی طور پے یہ جنگ لڑ رہے ہیں “” ہمارے ساتھ جو آنا چاہے سکتا ہے؟۔
اللہ اکبر آج یہ وقت آگیا کہ سیاسی دم توڑتی جماعت یہ کہ رہی ہے کہ”” جو ہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ ان کے ساتھ چل سکتا ہے”” اس بچے کے پاپا کے کہے ہوئے لفظ کہ “” تم اور تمہارا رہنما ابھی سیاسی بچے ہو”” ایک طرف نواز شریف کیلئے کہا جا رہا ہے کہ ان کا نام بے شک نہیں ہے مگر ان کے بیٹوں کا تو ہے اس لئے وہ بھی ملزم ہیں٬ دوسری طرف فارمولہ الٹا دیا جاتا ہے٬ سوئس بینک میں موجود کروڑوں ڈالرز کی وجہ سے اُس باپ کو جسے 5 سال تک نجانے کن کن القابات سے نوازا جاتا رہا آج ان کے بیٹے کو کنٹینر میں ساتھ لے کر کھڑے ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے؟ یہ کیسا توازن ہے؟ نواز شریف اپنے بیٹے کے نام کی وجہ سے مورد الزام ٹھہرا اور دوسری جانب اپنے مفاد کیلئے ایک ایسے باپ کے بیٹے کو ساتھ کھڑا کیا جا رہا ہے جس پر 5 سال تک آپ الزامات لگاتے رہے؟۔۔
یہ سیاسی کمزور دو رخی رویہ آج ہر اس نوجوان کو ہرا گیا جو سیاسی طور پے گھاگ سیاسی باپ کے سامنے سچائی کا علم تھامے ڈٹا ہوا تھا وہ سر جھکائے ہوئے ہے ٬ یہ نوجوان اس بار سیاست کا حصہ بنے اس لئے کہ وہ صحیح معنوں میں منزل چاہتے تھے بھول بھلیوں کی سیاست تو وہ بھگت رہے تھے ٬ حکومت کو پریشان کرنے والے آج خود پریشان کُن موڑ پے آگئے٬ جب ایک سیاسی پارٹی کامیاب سیاست سے “” زیر “” “” سے “” زبر”” ہوتی دکھائی دے رہی ہے ٬ اور سیاست کی زبر پارٹی نا عاقبت اندیشی سے”” زبر”” سے “”زیر”” ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔۔
تحریر: شاہ بانو میر