تحریر: بشری الطاف
ایک لکھاری کی تحریر ہی اسکا سب سے بڑا اثاثہ ہوتی ہے. ایک تحریر میں وہ اپنی سوچ، اپنے جذبات، اپنے احساسات، اپنے خیالات کو لفظوں کی زبان دینے کی کوشش کرتا ہے. کبھی یہ کوشش محض اپنے غم کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ہوتی ہے تو کبھی معاشرے کی اچھائیوں یا برائیوں کو قلم بند کر کے اصلاح کی ایک چھوٹی سی کوشش کی جاتی ہے۔ علم کی طرح انسان کی تحریریں بھی ایک ایسی دولت ہوتی ہے جو کبھی چرائی نہیں جا سکتیں کیوں کے چاند پر پہنچ جانے والا انسان آج بھی کسی کی سوچ کو پڑھ کر لفظوں میں ڈھالنے سے قاصر ہے۔ اللہ رب العزت نے یہ صلاحیت ہمارے اندر نہیں رکھی کہ ہم کسی کے دل و دماغ میں چلنے والی باتوں کو جان سکیں اور اگر ایسا ہو جاتا تو پھر اس دنیا کو لوگ دنیا نہیں بلکے جائے فساد کہتے۔ جس طرح سوچ نہیں چرائی جا سکتی، اسی طرح تحریریں بھی نہیں چرائی جا سکتیں مگر پھر بھی چرائی جاتی ہیں۔ ہم انسان ہیں نا!!!! اپنے مطلب کو پورا کرنے کے لیے ہر طریقہ جانتے ہیں۔ ہر جائز و نا جائز طریقہ۔۔۔۔ جب ہم کسی کے خیالات نہ چرا سکے، تحریریں نہ چرا سکے تو ہم نے چوری کا ایک نیا انداز اپنا لیا. پیسا دے کر کسی کی تحریریں پر اپنے نام کا ٹھپہ لگانا شروع کر دیا۔
ارے یہ بھی تو چوری ہے کسی کے جذبات کی چوری ، کسی کے خیالات کی چوری ، کسی کے احساسات کی چوری۔۔۔۔۔ ایک غریب لکھنے والے کی بھوک کا تماشا دیکھتے ہوئے اس کی تحریروں کو خریدا جانے لگا ہے۔ کاغذ کے چاند لال سبز ٹکڑوں کے عوض ادب کو بیچنے اور خریدنے لگے۔ ہر تیسرا آدمی اس فعل کو غلط قرار دیتے ہوئے بیچنے اور خریدنے والے کو برابر کا حصّہ دار کہلاتا ہے۔ کیا واقعی دونوں برابر ہیں؟ کیا دونوں کو ایک سطح پر رکھا جا سکتا ہے؟ کیا دونوں ہی مجبور ہیں؟نہیں ہرگز نہیں۔۔۔ دونوں برابر بھلا کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایک وہ ہے جسے معاشرہ دولت کے ہونے کی وجہ سے عزت دیتا ہے اور دوسرا وہ جو دولت نہ ہونے کی وجہ سے حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ایک وہی ہے جو جھوٹی شہرت کی خواہش میں ادب کو خریدنے میں لگا ہے جبکہ دوسرا اپنے پیٹ کے ایندھن کو بھجانے کے لیے، اپنی سوچ کو لفظوں کی زبان دیے بیچنے پر مجبور ہے۔
بھرا پیٹ اور خالی پیٹ برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھوک ایک ایسے آگ ہے جس کی لپیٹ میں تحریریں ہی کیا کئی انسانی جانیں تک آ چکی ہیں بھرے پیٹ سے ان لوگوں پے تنقید کرنے والوں سے میرا ایک سوال ہے کہ کبھی بھوک کا مزہ چکھا ؟کبھی پیٹ جیسے دوزخ کو آزمائش بنتے دیکھا ؟ارے !ایک دن میں دو دفعہ کھانے میں دال دیکھ کر آسمان سر پر اٹھا لینے والو !تم کیا جانو ،جب بھوک جیسی آفت سر پر پڑتی ہے تو پھر کہاں کا ادب ؟کہاں کی تہذیب ؟ کوئی ان خریدنے والوں کے خلاف کیوں نہیں بولتا ؟ان کی آنکھوں پے جھوٹی شہرت کی خواہش کی پٹی کو کوئی کیوں نہیں کھولتا؟ کوئی آواز اٹھائے بھی تو کیسے۔ہمارے ملک کا اندھا قانون اگر ممتاز قادری جیسے انسان کو پھانسی دے سکتا ہے ، آیان علی جیسی لڑکی کو ضمانت دے سکتا ہے تو پھر ایک امیر کے لیے اس قانون کے ذریعے ایک کمزور آواز کو دبوانا کون سا مشکل کام ہے۔ اگر کوئی پیسوں کا لالچ ایک بھوکے انسان کو دے گا تو شاید وہ اپنی بھوک پر قابو پا لے مگر ارد گرد اپنوں کو بھوک سے نڈھال کیسے دیکھ سکتا ہے۔
جبکہ اس بھوک کے ذمہ دار بھی ہم انسان ہیں۔ بقول شاعر خدا کا رزق تو ہرگز کم نہیں یارو مگر یہ کاٹنے والے، مگر یہ بانٹنے والے یہ شرم ناک کھیل ہمیشہ بھوک کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ دوستی جیسے خوبصورت رشتے کے نام پر بھی کھیلا جاتا ہے۔ جانے یہ دوستی کی کون سی سطح ہے جہاں ایک دوست اپنے دوست کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے اس کی تحریروں کو اپنے نام کر لیتا ہے۔۔ کہتے ہیں دوستی احساس کا رشتہ ہے، یہی وہ واحد رشتہ ہے جو ماں باپ کی نسبت سے نہیں بلکہ صرف اپنی ذات کی بنا پر بنتا ہے۔۔ مگر آج کل یہ رشتہ کیسا ہو گیا ہے جہاں صرف اپنی غرض سے ہمیں مطلب ہوتا ہے۔ اس سے بڑی دکھ اور تکلیف کی بات کیا ہو گی کہ اپنی تحریر کا خود مالک ہوتے ہوئے بھی ہم ملکیت کا احساس نہیں رکھتے.اپنے احساس و جذبات کو بیچنا اگر اتنا آسان ہوتا تو آج میرے خیال کے مطابق چند ایک کے سوا باقی ساری تحریریں ایسی ہوتیں جن میں جھلکنے والی سوچ کے عکس کا مالک اور ملکیت کا نعرہ لگانے والا انسان شاید ہی ایک ہوتا۔
اگر انسان ک جذبات سے ہٹ کر ادب کے پہراے میں بات کی جائے تو کیا یہ ادب کی بے عزتی نہیں کہ ہم آج ادب کی بولیاں لگاتے پھر رہے ہیں؟ ادب جو معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہے جس کے بغیر معاشرہ ادھورا رہ جاتا ہے. اسی لیے اس شعبے کو بیچنے خریدننے کی گالی دیتے ہوئے ہمیں ایک لمحے کو تو سوچنا چاہیے کہ یہ ہم دن بدن کس جانب بڑھ رہے ہیں ؟ بڑی حقارت سے اپنے ملک کو تیسرے درجے کا ملک کا نام دیتے ہوئے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ دوسرے معنوں میں ہم خود کو ہی تیسرے درجے کا کہ رہے ہیں۔ یہ ملک ہم ہی سے تو بنا ہے۔۔ ہم خود کو ہی یہ گالی دے رہے ہیں اور واقعی انجانے میں ہی سہی پر اپنے لیے ہم نے ایک بہترین نام تجویز کر لیا ہے۔ ادب جیسے شعبے پہ یہ بدنما ٹھپہ لگانے والے ہم خود کو اور کہ بھی کیا سکتے ہیں۔۔ جھوٹی شہرت کی خواہش کی تکمیل کے لیے اپنے ملک کا سسٹم خود خراب کر کیاس کے سدھرنے کی امید کیوں کرتے ہیں؟ جب یہ ملک یہ سسٹم ہمارا ہے تو پھر سدھارے گا کون؟ کوئی تیسرا آے گا جو ہمیں ہمارا سسٹم صاف شفاف کر کے ہمارے ہاتھوں میں تھما جائے گا تو پھر یہ دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔گلی محلوں میں ترقی کے نعرے لگانے والے خود کیا کر رہیں ہیں؟ گھنٹوں بحث کا نتیجہ کیا نکالتے ہیں؟؟
دن رات حکومت کو کوسنے کے علاوہ خود انفرادی طور پر کیا کر رہیں ہیں؟ پیسے کے بلبوتے پر ادب کی قیمت لگانے والے کس ترقی کے منتظر ہیں؟ جب اپنے نفس پر ہی قابو نہیں۔۔آخر میں بس اتنا کہوں گی اس کھیل کو مدد قرار دینے والو!!! اگر مدد کا اتنا شوق ہے تو اپنی اس گھٹیا خواہش کی عینکآنکھوں پر سے اتار کر دیکھو ، دنیا بھری پڑی ہے ایسے لوگوں سے جو ضرورت مند ہوتے ہوئیبھی عزت نفس کے مارے اپنی جھولیاں نہییں پھیلاتے … خدارا اس فعل کو مدد کا نام دے کر ادب کو مزید بے عزت نہ کرو اور نہ ہی کسی کی بے بسی کو خریدنے کی کوشش کرو۔۔ کب وقت کی بازی پلٹ جائے اور تم ان لوگوں کی صف میں آ کھڑے ہو .. کوئی نہیں جانتا کیو نکہ کہتے ہیں ہر عروج کو زوال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: بشری الطاف