اقبال تھیبا ایک کامیاب اداکار ہے۔ لاہور، کراچی یا بمبئی میں نہیں بلکہ وہاں اپنے خواب پورے کررہاہے جو دنیا کی تمام فلموں کا گڑہ ہے۔یعنی ہالی وڈ۔ ہالی وڈایک ایسا سنہرا شہرہے جہاں دنیا کے مہنگے ترین گھر موجود ہیں۔ ان گھروں کا تصور کم از کم ہمارے ملک میں نہیں کیا جا سکتا۔
اقبال تھیبا اسی شہرمیں اداکاری کا لوہا منوانے میںکامیاب ہواہے۔ کراچی میں پیداہونے والانوجوان جب تعلیم حاصل کرنے کے لیے اوکلوہو مایونیورسٹیگیا، تو تعمیراتی شعبہ سے منسلک تھا۔ ہمارے اداروں میں تو خیر اسکاتصورہی نہیں ہے کہ عمارتوں کی تعمیربھی ایک سائنس ہے اوردنیاکی بہترین جامعات اس شعبہ میں ڈگری دیتی ہیں۔
تعلیم کے دوران اقبال نے ایک معمولی سی کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔ سارا سارا دن حفاظتی ٹوپی پہن کر تعمیراتی ڈھانچے کے قریب کھڑا رہتا تھا۔ مزدوروں اور سپروائزروں سے صحیح کام کرانے کی کوشش کرتا تھا۔ مگرایک دم اندازہ ہواکہ اس شعبہ میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اندرکی آوازکہتی تھی کہ اداکاری کرنی چاہیے۔ درمیانی شکل وصورت کا نوجوان کسی ایسی خوبی کا مالک نہیں تھاکہ کوئی اس کی طرف متوجہ ہو۔ جب اقبال نے اپنے قریبی دوستوں سے ذکرکیاکہ ایکٹربننا چاہتا ہے، تو سب یہ سمجھے کہ مذاق کررہاہے۔کچھ یاروں نے تواسے کہا کہ یہ پاگل ہے۔
اقبال کے اندر کشمکش اس حدتک بڑھ گئی کہ کمپنی میں کام کرنا چھوڑ دیا۔ مگر سوال یہ تھاکہ اب کیا کرے۔ یونیورسٹی کے نزدیک ایک ہوٹل تھا۔وہاں برتن دھونے کے لیے ایک ملازم کی ضرورت تھی۔تھیبانے وہاں نوکری کرلی۔ عرصے تک برتن دھوتا رہا۔ کام اور لگن دیکھ کر ہوٹل کے مالک نے ترقی دیدی۔ترقی بھی معمولی نوعیت کی تھی۔ اقبال کو باورچی بنا دیا گیا۔ اسی دوران، اوکلو ہاما یونیورسٹی میں تھیٹر کے لیے اداکاروں کا آڈیشن ہوا۔ تیرہ لوگ قسمت آزمانے کے لیے آئے۔ تھیبا بھی خواب کی تعبیر کے لیے وہاں پہنچ گیا۔
ڈائریکٹر نے فیصلہ کیا کہ اقبال اداکاری نہیں کرسکتا۔ اسے منتخب نہیں کیا گیا۔ نوجوان کے لیے قیامت کی گھڑی تھی۔ عملاً باورچی اور حقیقت میں اداکاری سے ہزاروں نوری سال دور۔ دل برداشتہ ہوکر نیو یارک چلا گیا۔ سن رکھا تھا کہ وہاں شاندار تھیٹرہیں جنھیں نئے اداکاروں کی ہردم ضرورت رہتی ہے۔ اس کے پاس معمولی سی جمع پونجی تھی، جو نیو یارک جیسے شہرمیں ناکافی تھی۔ نیویارک بھی ایک غیرمعمولی شہر ہے۔
خوبی یہ ہے کہ یہ غریب کوبھی کھانا مہیا کرتاہے اور امیر ترین شخص کوبھی دنیاکی ہر نعمت۔ یہاں کئی ایسے ہوٹل ہیں جن میں کمرے کایومیہ کرایہ بارہ لاکھ سے تیس لاکھ روپے تک ہے اور یہاں ایسے امریکی ڈھابے بھی ہیں جہاں چند روپوں میں انسان پیٹ بھر لیتا ہے۔غریب آدمی کے سونے کے لیے کئی ایسے کونے کھدرے ہیں جہاں سیکڑوں انسان سوسکتے ہیں۔ لکڑی کے ڈبوں اور پھٹے پرانے کپڑوں سے آراستہ یہ جگہیں سالہاسال سے موجود ہیں۔
خیر اقبال تھیبانے وہاں مزدوری کرنی شروع کر دی۔ ہوٹلوں میں ٹیبلیں صاف کرنے کاکام شروع کردیا۔ روز فارغ ہوکرکسی نہ کسی تھیٹرمیںاداکاری کاکام تلاش کرنے چلا جاتاتھا۔مگرکسی جگہ بھی دھکوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ چند چھوٹے چھوٹے رول ضرورملے مگر معاوضہ نہیں ملا۔یہ اس کی زندگی کے وہ دن تھے جس میں ذلت اوربے کاری اس کی دہلیز کے سامنے مستقل ڈیرے ڈال چکی تھی۔
اقبال واپس اوکلاہاما یونیورسٹی چلاگیا۔وہاں قرضہ لے کر اداکاری کے شعبہ میں داخلہ لے لیا۔کورس مکمل کرنے تک قرض میں غرق ہوچکاتھا۔کوئی بھی اسے ایک ڈالردینے کے لیے تیارنہیں تھا۔مگرتھیبالڑناجانتاتھا۔اس کی روح کی آواز تھی کہ ایک عظیم اداکاربن سکتاہے۔حالات اس درجہ دگرگوں ہوگئے کہ اوکلوہاما سے نکلناپڑا۔تھیبانے ایک انتہائی مشکل فیصلہ کیا۔غربت کی حالت میں ہالی وڈچلاگیا۔یہ سفر اس نے کیسے طے کیاتھا،یہ صرف اورصرف وہی جانتا تھا۔ جب ہالی وڈمیں داخل ہواتواس کے پاس محض پینتیس ڈالر تھے۔یعنی پاکستانی روپوں میں تقریباً چار ہزار روپے۔
کوئی تصوربھی نہیں کرسکتا تھا کہ ہالی وڈمیں اس بے سہارا انسان کووہ پذیرائی ملے گی کہ سب حیران ہوجائیں گے۔وہاں اسے کسی بڑی فلم میں توکام نہ مل سکا۔مگراسے ٹی وی اشتہارات کے لیے چن لیاگیا۔قلیل عرصے میں درجن سے زیادہ اشتہارات میں کام کیااورکامیابی اورمحنت سے اپنا لوہا منوایا۔شوٹنگ پرپیدل پہنچتاتھا۔بلکہ وقت سے پہلے پہنچ جاتاتھا۔ان اشتہارات کے معاوضے کی بدولت کم ازکم اس سطح پرپہنچ چکا تھا کہ اپنے اخراجات آرام سے پورے کرلے۔
1993 میں اسے ایک ٹی وی سیریز موت اور ٹیکس میں بہت اچھا رول مل گیا۔ جوہر دیکھ کر ڈائریکٹر نے محسوس کیا کہ وہ کمال کا کام کرتاہے۔ اسے بے تحاشہ ڈرامہ سیریل ملنے شروع ہوگئے۔جس میں سب لوگ ریمنڈ دوست سے پیار کرتے ہیں جیسے بین الاقوامی شہرت کے ڈرامے بھی تھے۔ اب قسمت اس کے ساتھ تھی۔اقبال کوفلموں میں بھی بہترین کردارملنے شروع ہوگئے۔ جن میں غیر متوقع تجویز اور باسکٹ بال جیسی بہترین فلمیں بھی شامل تھی۔مگراسکاآفاقی رول ایک ٹی وی سیریل گلی میں نمودار ہوا جس میں ایک پرنسپل کا کردار ملا۔یہ اس درجہ کامیاب ہوا کہ 58 دورانیے تشکیل دیے گئے۔ اب اقبال تھیبادنیاکے بہترین اداکاروں میں شمار ہوتا ہے۔
اقبال تھیباکی سچی داستان شائدبے محل لگے۔ذہن میں یہ سوال بھی آئیگاکہ اس کی زندگی کاہمارے نوجوان بچوں اوربچیوں سے کیاتعلق ہے۔ہوسکتاہے کہ آپکا سوال درست ہو۔مگرسوال کاجواب جوآپکے ذہن میں ہو۔ اقبال تھیباکی زندگی سے کشیدکردہ جواب اس سے بالکل متضاد ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں اکثرنوجوان صرف خواب دیکھتے ہیں۔اس کی تعبیرکے پورانہ ہونے کی صورت میں ہرادنیٰ چیز قبول کرلیتے ہیں۔سرکاری شعبہ کو دیکھیے۔
پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں خواب دیکھتے ہیں کہ وہ سی ایس ایس کرکے اعلیٰ عہدہ حاصل کرلیں۔ یہ حاصل ہوبھی جاتا ہے مگرانھیں قطعاً شعورنہیں ہوتاکہ انتہائی کم تنخواہ میں کیسے گزارا کرینگے۔ پھر عملیت پسندی عودکرآتی ہے۔ بیشتر سرکاری ملازمین، مقتدر طبقے کے ساتھ ملکرلوٹ مارشروع کر دیتے ہیں۔ڈری ڈری سی زندگی گزارتے ہیں۔حکومت چلے جانے سے طاقتور ترین بیوروکریٹ چوہے بن جاتے ہیں اورکسی نہ کسی پنجرے میں پھنس جاتے ہیں۔
وجہ صرف یہ کہ ان میں ہمت نہیں ہوتی کہ اپنے خوابوں کے حصول کے لیے جنونیوں کی طرح محنت کریں۔وسائل پیداکریں اور رزق میں جائز کشادگی لائیں۔ جن افسروں نے خوابوں کے حصول کے لیے لگی بندھی زندگی کو چھوڑا۔رسک لیا،وہ صرف کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ایک مثال بن گئے۔ ہنڈا کمپنی کے مالک شیرازی نے جب انکم ٹیکس افسر کی نوکری چھوڑی، تو دفتر ایک کمرے کاتھا۔اسے جنون تھاکہ پاکستان میں گاڑیاں بنائیگا۔آج ملک کے امیرترین لوگوں میں ہے۔ اس کے ساتھی جوسرکاری زندگی میں جتے رہے، چند سکے کما کر گوشہ گمنامی میں جاچکے ہیں۔
شیرازی کے خیالات اقبال تھیبا کی طرح کے تھے۔انھیں حاصل کرنے کے لیے جدوجہد بھی کی اورسول سروس سے بغاوت بھی کی۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ خیرسی ایس ایس کو چھوڑ دیجیے۔ پولیس میں کانسٹیبل بھرتی کے لیے ہزاروں نوجوان درخواست دیتے ہیں۔گھاس پربیٹھ کر امتحان دیتے ہیں۔ میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ افسروں اور سیاستدانوں سے سفارش کراتے ہیں۔رشوت دیتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ بس جیسے ہی پولیس کانسٹیبل بھرتی ہونگے دنیاکے سکندربن جائیں گے۔ مگر دس برس بعدیہ نوجوان ذہنی طور پر شکست خوردہ اوربے چین ہوجاتے ہیں۔ایسے ایسے مصائب جھیلتے ہیں، جس کوبیان کرنا بھی مشکل ہے۔
وجہ کیا، اکثریت اپنے لیے محنت کا وہ راستہ نہیں اپناتی جواقبال تھیبانے اپنایا تھا۔مثال دے رہا ہوں۔ اگر ایک نوجوان روغنی نان ہی بہترین طریقے سے لگانا شروع کردے، اسے اپنے کام پرحددرجہ عبورہوتوروزانہ ہزاروں روپے کما سکتاہے۔اسے بھی چھوڑ دیجیے۔یہاں تک عرض کرونگا کہ اگرقسمت کادروازہ اس ملک میں نہیں کھلتا تو بغیر تردد کے ملک چھوڑدیجیے۔وہ کام کریں جوقرآن اور سیرت میں حکم ہے۔یعنی ہجرت۔ مجبور اور بے کس زندگی گزارنے سے بہت بہترہے کہ نئی زمین اور نئے آسمان میں قسمت آزمائی کی جائے۔
اپنے ملک سے محبت کایہ مطلب نہیں کہ اس غیر منصفانہ نظام میں رحم کی بھیک مانگتے رہیں۔ اپنے خواب بچائیں اوران علاقوں میں جائیں جہاں اپنی صلاحیت کا بھرپور استعمال کرسکتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کاصرف ایک طریقہ یافارمولا نہیں ہے۔ ہر انسان کی قسمت الگ الگ ہوتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔ اگر شیرازی،زمین سے اُٹھ کرپاکستان کی بہترین گاڑی بنا سکتا ہے۔ اگراقبال صرف پینتیس ڈالر جیب میں ڈال کرہالی وڈکا کامیاب ترین اداکاربن سکتاہے تو آپکوکس معجزہ کا انتظار ہے۔ آگے بڑھیے۔پینتیس ڈالرسے کروڑپتی بنناقطعاًناممکن نہیں ہے۔ اپنے خواب پورے کیجیے۔ ہر قیمت پر۔