لاہور (ویب ڈیسک) نو ماہ تک مجھے ہسپتال کی کھڑکی سے ایک ہی پہاڑ نظر آتا تھا اور میں اسے دیکھ کر سوچتی تھی کہ میں جب یہاں سے باہر جاوں تو پوری دنیا دیکھوں۔‘ پھر کیا مانوں راجہ نے پوری دنیا دیکھی؟ بالکل دیکھی۔ ایک دو نہیں پورے 28 ملک۔ ایک ایسے وقت کے بعد نامور خاتون صحافی نازش ظفر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ بتاتی ہیں کہ انہیں وینٹی لیٹر پر مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔ خود کو فرنچ کشمیری کہنے والی مانوں راجہ کے پاس کوما (بے ہوشی) میں گزارے وقت کی تو کوئی یاد نہیں ہے لیکن موت جیسی اس تاریکی سے دنیا بھر کی سیاحت تک کا سفر انہیں خوب یاد ہے اور اب وہ سوشل میڈیا پر اسے شئیر بھی کرتی ہیں۔ مانوں راجہ کو موت جیسی اس تاریکی سے دنیا بھر کی سیاحت تک کا سفر خوب یاد ہے اور اب وہ سوشل میڈیا پر اسے شئیر بھی کرتی ہیں ۔ بی بی سی سے گفتگو میں اس سفر کی کہانی ان ہی کی زبانی کچھ یوں ہے: میں فرانس میں مقیم تھی جب دو ہزار سترہ میں کندھے میں تکلیف کے باعث ہسپتال گئی تو ڈاکٹرز نے کہا کہ مجھے پتے کا مسئلہ ہے جسے آپریشن سے نکال دیا گیا ۔ لیکن آپریشن کے بعد میرا بخار اور درد بہت بڑھ گیا۔ سکینز کے بعد پتہ چلا کہ میرے معدے میں سوراخ ہے اور بہت دن سے میں جو کچھ بھی کھا رہی تھی وہ پورے جسم میں لیک ہو کر انفیکشن کا باعث بن رہا تھا اور اسی وجہ سے میں کوما میں چلی گئی۔ جو تین ماہ تک رہا۔ اس دوران ڈاکٹروں نے سٹنٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا لیکن وہ تجربہ ناکام ہوا، مجھے ہیمرج ہوا اور میری ایک ٹانگ مفلوج ہو گئی۔ مجھے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا۔ پانچ دن تک ڈاکٹروں نے مجھے مردہ قرار دیا اور میں لائف سپورٹ پر رہی۔ ہسپتال میں گزارے اس وقت کے دوران میرا جسم ڈرین پائپس اورڈرپس میں جکڑا ہوتا تھا۔ ایسا وقت بھی تھا جب میں گردن گھما نہیں سکتی تھی، بیٹھ کر سوتی ، لیٹ نہیں سکتی تھی۔ شدید درد اور مایوسی کے دنوں میں مجھے میرے خاندان سے ہی حوصلہ ملا۔ میرا چھوٹا بھائی روزانہ کالج سے آنے کے بعد ہسپتال آتا اور میرے پیروں میں بیٹھ کر سو جاتا تھا۔ اور یہ وہ وقت تھا جب میں نے اسے دیکھ کر سوچا کہ اس کے لیے یہ وقت کتنا مشکل ہوگا اور کس طرح میری وجہ سے میرا پورا خاندان بہت تکلیف میں ہے۔ میں نے اس دن بھائی سے کہا کہ آج میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں ٹھیک ہو جائوں گی۔ مجھے خود اپنا آپ ٹھیک کرنا ہے۔ ان ڈاکٹروں سے کچھ نہیں ہونے والا۔ بس اس کے دو ہفتوں کے بعد میری صحت آہستہ آہستہ بحال ہونا شروع ہوئی۔ دو ہفتوں کے بعد میں نارمل وارڈ میں تھی اور ایک ایک کر کے میرے ڈرین پائپ بھی اترتے گئے ۔ فزیو تھراپی کے ساتھ میری مفلوج ٹانگ بھی ٹھیک ہونا شروع ہو گئی۔ لیکن اس عمل میں نو ماہ لگے۔ہسپتال سے نکلنے کے ایک ہفتے بعد ہی میں نے تھائی لینڈ اور ملائشیا کا سفر وہیل چئر پر کیا۔ مجھے لگا سفر کرنا مجھے ڈپریشن سے بچا سکتا ہے۔ اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں۔میں نے ایشیا، امریکہ، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے 28 ممالک کا سفر کیا اورچھ مختلف ملکوں میں رہائش اختیار کی۔ میں اب بھی نارمل لوگوں کی طرح کھا پی نہیں سکتی۔ سکنگ پائپ کے بعد میرا معدہ سکڑ گیا ہے۔ میرے معدے کی چوڑائی ایک سنٹی میٹر ہے۔ جبکہ ایک نوزائیدہ بچے کے لیے یہ سائز تین سنٹی میٹر ہوتا ہے۔ میں دن بھر میں چند لقمے ہی کھا سکتی ہوں۔ گوشت، اور بہت سی قسم کے سبزیاں اور پھل میرے لیے ممنوع ہیں اور مجھے خود کو سوڈیم اور گلوکوز کے انجیکشن لگانا پڑتے ہیں۔سفر کرنا میرے لیے آسان نہیں ہے، مجھے بہت احتیاط کرنا پڑتی ہے۔ جہاں ایک عام آدمی کو پانچ دن لگتے ہیں وہاں مجھے دس دن لگ جاتے ہیں۔ لیکن تھکن بھی اچھی لگتی ہے کیونکہ اس کے بعد مجھے نیند اچھی آتی ہے۔کہیں پر جانے کا فیصلہ یوں کرتی ہوں کہ مجھے فطرت اور تاریخ سے بہت دلچسپی ہے۔ کتابیں بھی پڑھتی ہوں تو اس سے ہی کہیں جانے کا ارادہ باندھتی ہوں۔میری ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کیا اور پوچھا کہ میں اتنا خوش کیسے رہ لیتی ہوں۔ تب مجھے لگا کہ مجھے اپنی بیماری اور بحالی کی بات کرنا چاہیے۔ میں کوئی نفسیات دان نہیں ہوں لیکن میں اپنا تجربہ بتا سکتی ہوں۔ کہ کس طرح میں خود سے بات کرتی تھی اور اپنے دماغ کو چکمہ دینے کی کوشش کرتی تھی کہ سب ٹھیک ہے اور مجھے مثبت ہی سوچنا ہے۔جو کچھ میرے ساتھ ہوا اس کے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہ سب کچھ ہو جاتا ہے جو کبھی سوچا نہیں ہوتا۔ لیکن ضروری یہ ہے کہ اچھی باتیں سوچی جائیں۔