لاہور (ویب ڈیسک) شیطان ایک کاشت کار ہے، جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے‘‘۔ یہ عارف نے کہا تھا… اور فرمان یہ ہے: اللہ نے نفس کو پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ فرمایا: اللہ کے بندے وہ ہیں، زمین پر جو نرم روی سے چلتے ہیں، غصّہ پی جاتے ہیں… نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جاہل الجھنے کی کوشش کریں تو وہ کہتے ہیں: تم پر سلامتی ہو۔ دور دراز سے آنے والے رحمۃ للعالمینؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اسلام قبول کر لیا۔ قریش نے روکا۔ جھگڑا کرنے کی کوشش کی۔ وہ طرح دے گئے۔ بولے: ہم فساد کے لیے نہیں آئے۔ ان کی شان میں یہ آیت اتری: واذا خاطبھم الجاہلون قالوا سلاما۔ ارشاد یہ ہے: دنیا کی محبت ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ محبت محض مال و زر سے نہیں، اپنی ذات سے ہوتی ہے۔ شہرت و اقتدار کی تمنّا بھی، غلبے کی آرزوبھی۔ ”اچھے بھلے با خبر آدمی ہو۔ کالم میں قرآن کریم کا حوالہ نہ دیا کرو‘‘۔ بارہ برس ہوتے ہیں، یہ نصیحت کسی صاحب نے کی تھی۔ اصل الاصول قرآن کریم سے ملتا ہے، حضورؐ سے یا تاریخی تجربے میں۔ سب جانتے ہیں کہ تنازع اور تصادم سے حکمران کو بچنا چاہئے۔ ظہیرالدین بابر کو ہیرالڈ لیم بے سبب ”بادشاہوں کا بادشاہ‘‘ نہیں کہتا۔ اولوالعزمی اپنی جگہ، سپاہ گری سوا، ذہین ترین حکمرانوں میں سے ایک تھا۔ تزک بابری، ہر اس شخص کو پڑھنی چاہئے، حکمرانی اور سپاہ گری کے رموز جو سمجھنا چاہے۔پاک فوج کے سپہ سالار جنوبی وزیرستان میں کارروائی کے ادھیڑ بن میں تھے۔ ایک مخلص سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا: ”سوات سے بھی آسان‘‘۔ حیرت کی تو ان صاحب نے کہا: چوٹیوں پر قبضہ کر لیجیے،درّے بند کر دیجیے، کھانے کا انتظام بہترین ہو اور سرما کی شدّت کے سبب لباس موزوں ترین۔ جنرل نے کہا: لباس تو ان کے لیے سیاچن والا طے کیا ہے۔ حکمت عملی کے باقی،خطوط بھی تقریباً یہی ہیں۔ تعجب ہے کہ آپ فوجی افسروں سے زیادہ پر یقین ہیں۔ جواب ملا: تزک بابری کا میں نے کبھی مطالعہ کیا تھا۔ یہ نسخہ فاتح کی یادگار ہے۔ بابر نے لکھا ہے کہ فلاں سے فلاں مقام کی طرف جاتے ہوئے، لشکر کو بھوک نے آ لیا۔ ایک سردار اپنا ریوڑ ساتھ لیے تھا۔ قرض پر اس سے بکریاں خریدنے کی کوشش کی۔ اس نے انکار کر دیا۔ جنگل میں شکار کھیل کر سپاہیوں کا پیٹ بھرا۔اسے برا بھلا وہ نہیں کہتا۔ اسے بھی نہیں، جس نے کہا تھا کہ ہندوستان با ذوق انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں۔ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد، جس نے شہنشاہ کو توہین آمیز خط لکھا تھا۔ وہی سردار، جس کے ہاتھ کابل کے ، تمام شہریوں کے لیے دو، دو اشرفیاں بھیجی گئیں۔ نیم دیوانے ماموں کے لیے صرف ایک ”اشرفی‘‘ جو اس کے گلے میں پہنائی گئی… وزن 18 سیر ! آخری برسوں کے سوا جب اسے جنون سا لاحق ہوا، اکثر وہ معاف کر دیتا۔
اپنے تمام رشتہ داروں کو،جو سازشوں کے در پے رہے، ماموئوں اور چچائوں کے خاندان۔ اس راز سے خوب وہ آشنا تھا کہ جو لوگ انتقام کے آرزو مند رہتے ہیں، وہ صرف انتقام لے سکتے ہیں، زندگی بسر نہیں کرتے۔ زندگی انہیں بسر کر ڈالتی ہے۔ بہت ادب کے ساتھ حکمران پارٹی سے درخواست ہے کہ شیخ صاحب کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا ممبر نامزد کرنے کا فیصلہ واپس لینا چاہئے۔ امید ہے کہ اس کے بعد نون لیگ بھی خواجہ سعد رفیق پہ اصرار نہ کرے گی۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: فساد قتل سے بھی بڑاجرم ہے۔ اقبالؒ واقعی دانائے راز تھے۔ ان کے اس مصرعے کی بہت سی جہات ہیں۔ دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد ۔۔ کامیابی کس چیز کا نام ہے؟ آپؐ نے فرمایا: طاقتور وہ نہیں جو اپنے حریف کو پچھاڑ دے۔ وہ ہے، جو اپنا غصّہ پی جائے۔ منیر کاظمی، حبیب جالب اور ظہیر کاشمیری،ان دنوں رفتگاں بہت یاد آتے ہیں۔ کبھی یہ خاکسار بیتے دنوں پہ تاسّف کا شکار ہو جاتا ہے۔ سارے غلط فیصلے، غصّے میں کیے۔ رنج کا شکار ہو جانا، خود شکنی ہے۔ ابلیس کا جرم فقط تکبّرنہ تھا، محض انکار نہ تھا۔ اس کے لغوی معنی ”مایوس ‘‘ کے ہیں۔ مایوسی اس کے حربوں میں سے ایک حربہ ہے۔زیادہ شکار وہ لوگ ہوتے ہیں،پہلے سے قنوطیت میں جو مبتلا ہوں۔ جو یہ بات نہ سمجھتے ہوں کہ ناکامیوں کا ذمہ دار آدمی خود ہوتا ہے ، دوسرے نہیں۔ کہاں کہاں کس نے رکنا اور ٹھہرنا ہے۔ کن مشکلات کا شکار ہونا ہے، یہ پہلے سے لکھّا ہے۔ لوحِ محفوظ میں رقم ہے۔ صرف دعا ہے جو تقدیر کو ٹال سکتی ہے۔ قسمت جس نے بنائی ہے، بدل بھی وہی سکتا ہے۔ جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قوم کی تقدیر بدل دیں گے، اپنے طرزِ فکر پہ انہیں غور کرنا چاہئے۔ کوئی کسی کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔ افضل ترین انسانوں کی آرزوئیں بھی پوری نہ ہوئیں۔ معاملات اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ غلطی ہو کے رہتی ہے۔ آدمی کو آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا۔ جو تصحیح اور توبہ کر لیتے ہیں، وہ رفوکر لیتے ہیں۔ رفوبھی سری نگر کے ان رفوگروں سے بڑھ کر دریدگی کا نشان تک جو باقی نہ رہنے دیتے۔ کیا کہنے، اس شاعر کے کیا کہنے ؎ مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم ۔۔ تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا ۔۔ قسمت رفو ہو سکتی ہے۔ اللہ کی رحمت کو اگر آواز دی جائے۔ 1947ء کے خونیں فساد پر، لاکھوں انسان، جس میں بے دردی سے قتل ہوئے، قائداعظمؒ افسردہ بہت تھے۔روایت ہے کہ سوات کے ایک صوفی سے انہوں نے رابطہ کیا اور پوچھاکہ کیا وہ بھی اس فساد کے ذمہ دار ہیں؟ اس نے کہا: بالکل نہیں۔ سوال کیا:میں کیا کروں؟ جواب ملا: استغفار کیاکیجیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ صاحبانِ عظمت کا یہ شیوہ ہے۔ سرکارؐ کو ان کی زندگی میں مقام محمود کی نوید دی گئی۔ اس کے باوجود آپ ؐاستغفار پڑھا کرتے۔ اس کے باوجود کہ آپؐ یکسر معصوم تھے۔ خطا کا ارتکاب ، نبوت کے نزول سے پہلے بھی نہ کیا۔ قطر میں وزیراعظم کے دورے کا مشاہدہ کرنے والے ایک اخبار نویس نے کہا: ستائش پہ بہت شاد ہوتے ہیں،پہلے تو ایسے نہ تھے۔ عرض کیا کہ یہ کمزوری تو ابتدا سے تھی۔ امام حسنؓ کا شاید یہ قول ہے: دولت اور اقتدار سے آدمی بدلتا نہیں، فقط منکشف ہوتا ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں۔ وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے/ ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ ایسے لوگ خال ہوتے ہیں، ایوانِ اقتدار کی ہیت میں سچائی کا دامن جو تھامے رکھیں۔ 28 برس ہوتے ہیں، پنجاب کے سابق گورنر میاں محمد اظہر نے اس ناچیز سے پوچھا: ہماری حکومت کے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں؟ ٹالنے کی کوشش تھی کہ پہلی ملاقات تھی۔ وہ ہنسے اور کہا: تمہی سے کچھ امید تھی، وگرنہ جو بھی آتا ہے، تعریفوں کے پل باندھ دیتا ہے۔ تم بھی دوسروں جیسے۔ حوصلہ افزائی کا نتیجہ نکلا کہ کھل کر بات کرنے لگا۔ 1993ء کے ہنگامہ خیز ایّام میں، نازک ترین معاملات پر انہوں نے اس ادنیٰ کو اعتماد میں لیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ناچیز نے بھی مشورے کو امانت جانا۔ وہی بات ان سے کہی جو ان کے مفاد میں تھی، معقول محسوس ہوئی، بے اصولی، جس میں نہیں تھی۔ آج ایک بہت اچھا نکتہ کسی نے بیان کیا۔حکمران پارٹی پر مایوسی کا اظہار کیا تو بولے: آپ کا کام یہ ہے کہ خیر خواہی کریں، اصولی بات کہتے رہیں۔ شیخ ابو الحسن خر قانیؒ کا ارشاد یہ ہے: رقص وہ کرے، پایۂ عرش، جس کے دستِ دعا کی رسائی میں ہو۔