جناب سراج الحق بھی کبھی کبھی کچھ ایسی چھوڑ دیتے ہیں جس پر ہمارا ٹٹوئے تحقیق خود بخود اسٹارٹ ہو جاتا ہے۔ مثلاً اب کے پانامہ پر لوگ کیا کیا نہیں ہانک رہے ہیں اتنی دور دور کی کوڑیاں لائی جا رہی ہیں کہ وہ کوڑیاں راستے سے گھس گھسا کر رائی برابر رہ جاتی ہیں‘ ہر ایک اس’’معاملہ چیستان‘‘ کو اپنے اپنے کورٹ میں لا رہا ہے۔ چنانچہ مولاناسراج الحق نے بھی بات کو کھینچتے کھانچتے اپنے کورٹ میں پہنچا دیا۔ بولے تو اتنا بولے کہ یہ نواز شریف کا معاملہ یا کرپشن کے سومنات پر پہلا حملہ یا وار ہے۔ سب سے پہلے تو ہم جناب سراج الحق کو اس بات کی داد دینا چاہتے ہیں کہ انھوں نے کس کمال ہنر مندی سے پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی۔ اور اس بات میں تھوڑا سا فخر کا پہلو بھی ہے کہ ہمارے دوست ہونے کے ناطے یہ کمال انھوں نے ہم سے حاصل کیا ہے۔ یعنی ہماری ہی صحبت صالح کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ ہم بھی اسی طرح جلیبی اور پکوڑے پر تحقیق کا ٹٹو دوڑاتے ہوئے اندلس و بغداد تک پہنچ جاتے ہیں۔
ویسے انھوں نے اپنے نظریات کی بھی بڑی خوبصورت تشریح کی ہے کیونکہ ایک دنیا مانتی ہے کہ ان کی جماعت با قاعدہ طور پر تو بہت بعد میں بنی ہے لیکن اس کی بنیاد محمود غزنوی اور اورنگزیب عالمگیر نے رکھی تھی یا یوں کہیے کہ بیج محمود غزنوی نے ڈالا‘ آبیاری اور نگزیب عالمگیر نے کی اور پالن پوسن ان کی جماعت نے کی ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مولانا سراج الحق پر ہمارا ایک اثر اور بھی پڑا ہے کہ تاریخ پر ان کی گہری محققانہ نظر ہے۔
محمود غزنوی اور سومنات کو پانامہ اور نواز شریف سے تطبق دینے میں تاریخ کا علم صاف دکھائی دے رہا ہے۔ محمود غزنوی نے بھی ’’سومنات‘‘ کا بت تو ڑ کر پورے ہند میں بت پرستی ختم کردی تھی اور غالباً نواز شریف کی وجہ سے پاکستان میں بھی کرپشن کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ انھوں نے کہا بھی ہے اور سیاق و سباق سے بھی پتہ چلتا ہے کہ عمران خان عرف محمود غزنوی جدید نے سومنات پر وار کر کے بت شکنی کی ابتدا کر دی ہے اب آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آگے بہت دور تک چلے گا اور کرپشن کے سارے چھوٹے بڑے بت ٹوٹتے چلے جائیں گے شاید اس کی پیش گوئی فیض احمد فیضؔ نے کی ہوئی ہے ۔کہ
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
محمود غزنوی نے بھی غزنی سے چل کر سومنات کا بت توڑدیا تو اس کے ساتھ ہی پورے ہندوستان میں بت پرستی کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا اور آج تک مجال ہے جو ہندوستان میں کوئی بت ہو یا بت پرستی ہو سارا ملک بلکہ سارا خطۂ بتوں سے یکسر خالی ہوگیا بلکہ ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ محمود غزنوی کے بعد ہند میں کوئی بت محض دیکھنے کے لیے باقی نہیں رہا تھا اور یہی صورت حال آج تک قائم ہے سنا ہے سیاح لوگ جب آکر بتوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو ان کو بتوں کی تصویر دکھا کر یا زمین پر لکیریں کھینچ کر بتایا جاتا ہے کہ بت کیسے ہوتے تھے۔
اس کے بعد اور نگزیب چونکہ عالمگیر بھی تھے اس لیے انھوں نے تو صرف پتھر مٹی کی صورتیں ہی نہیں گوشت پوست کے بت بھی مسمار کر دیے تھے‘ اپنے بھائیوں پر بھی بت پرستی یا بت ہونے کا شبہ ہوا تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ہم ہندوستان کئی بار گئے لیکن مصروفیت کی وجہ سے مندروں وغیرہ میں جھانک نہیں سکے لیکن لوگوں سے سنا ہے کہ اب وہا ں کوئی بت نہیں ہے لوگ سامنے رکھ کر صرف خود کی پوجا کرتے ہیں۔
یہ استدلال قائم کرکے مولانا سراج الحق نے ہماری امیدوں کی فصل کو بہا دیا کہ یہ نواز شریف کا واقعہ بھی سومنات پر محمود غزنوی کے وار جیسا ہے ان مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان میں کرپشن کے سارے چھوٹے بڑے بت چکنا چور ہو جائیں گے کیونکہ نرگس کے ہزاروں سال رونے کے بعد وہ ’’دیدہ ور‘‘ پیدا ہو ہی گیا جو کرپشن کا قلع قمع کر ڈالے گا۔ہمارا بھی اندازہ ہے کہ ایسا ہی ہوگا بلکہ آثار بھی دکھائی دینے لگے ہیں کہ بہت سارے بت خان صاحب کی لانڈری میں جا کر شفاف ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اور یہ ٹھیک بھی ہے کہ مریض کے بجائے علاج مرض کا ہونا چاہیے اب خان صاحب کے پاس اتنے گرز اور ہتھوڑے تو ہیں نہیں کہ سارے بتوں کو توڑ ڈالیں اس لیے اگر کوئی بت خور ہی بدل کر بت کے بجائے انصاف کا ترازو بنتا ہے تو یہ اور بھی اچھا ہے یعنی نہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے مطلب تو بت پرستی کو ختم کرنا ہے بت پرستوں کو نہیں سومنات میں بھی کچھ کرنے کے بجائے فساد کی جڑ کو ختم کردیا گیا تھا تاکہ نہ بانس رہے نہ بجے بانسری۔
ایک اچھا کام ہونے پر لوگ خود بخود سر سرھرنے لگتے ہیں جس طرح سومنات کا بت ٹوٹنے پر بت پرستوں نے بت پرستی چھوڑدی اورمحمودغزنوی کے دست حق پر خدا پرست ہوگئے تھے ٹھیک اسی طرح آج بھی ہونے لگاہے بت پرست جوق در جوق بت پرستی سے توبہ تائب ہوکر ’’توحید‘‘ پرستوں میں شامل ہو رہے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر توحید پرست ہوتے جا رہے ہیں۔
اور اگر یہ سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا تو جناب خان صاحب کے وزیراعظم بننے تک وہ سارے بت ختم ہو چکے ہوں گے جو جماعت کی آستینوں میں ہیں مطلب یہ کہ اب شاید اتنی محنت کی ضرورت ہی نہ پڑھے جو سومنات کا پہلا بت ہمارا مطلب موجود کرپشن کی سومنات سے ہے پر لگی تھی۔اس لیے ہم جناب سراج الحق سے بالکل متفق ہیں اور ان یہ انداز ہ یا پیش گوئی بالکل درست ہے کہ اس سے پہلے ’’محمودی وار‘‘ کے بعد اب کرپشن کے بتوں کی خیر نہیں ہے اور انشاء اللہ خدا مولانا سراج الحق کی زبان مبارک کرے گا او ارض پاک سارے بتوں سے پاک بلکہ ’’شفاف ‘‘ ہو جائے گا’’ بات نکلی ہے تو اب دور تلک جائے گی۔