اپنے ذاتی مفادات کے لئے اپنی عیش و عشرت کو یقینی بنانے اور قوت و اقتدار کی حرص میں مبتلا حریص، لالچی، خود غرض طالع آزمائوں نے ہمیشہ ضمیر فروشی، وطن فروشی اور دین فروشی میں تمام حدوں کو پار کیا اور اپنی قوم ملک و ملت کے مقدر کے سوداگر بن کر ملتوں کے سودے تک کر دیے۔
میسور کی جنگ آزادی صرف ایک حکمران کی جنگ نہ تھی بلکہ صدیوں کے ان پسماندہ مظلوم اور بےبس انسانوں کے ذوق نمود کا مظاہرہ تھا جنہیں ٹیپو سلطان نے جہالت و افلاس سے نکال کر تہذیب و اخلاق کی مسند پربٹھا دیا تھا۔ کاش کہ سلطان شہید کی داستان حریت ان کرداروں سے خالی ہوتی جن کی ابن الوقتی، ملت فروشی اور غداری کے باعث سرنگا پٹم کے شہیدوں کی بےمثال قربانیاں ایک بدنصیب قوم کی تقدیر نہ بدل سکیں۔ کاش ہم اپنے ماضی کی تاریخ کے روشن ترین اوراق میں میرصادق، قمرالدین، پورنیا، میرنظام علی اور میرعالم جیسے نام نہ پاتے تو آج ملت فروش، میر صادق جیسے کرداروں کو اپنے صفوں میں جگہ دینے کی نوبت نہ آتی۔
وہ میر صادق جو آج دھاڑ دھاڑ کر مجھے کیوں نکالا کا شور کر رہا ہے۔ جس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ قومی وحدت پر نشتر بن کر گر رہا ہے۔ وہ جو اغیار کی زبان بول رہا ہے۔ جو پاکستان کو اندر سے کمزور کر کے اپنی ملت کو بےبس و مجبور کر کے عالمی بھیڑیوں کے سامنے بھیڑوں کی طرح باندھ کر پھینک دینا چاہتا ہے۔
جس کا ہر ہر وار اپنے دفاعی حصار پاک فوج پر ہو رہا ہے۔ جو اپنے پڑوسی ملک ہندوستان کی زبان بول رہا ہے۔ کارگل جس کے نزدیق پاک فوج نے ہندوستان کی پیٹ میں چھرا کھونپا، ممبئ حملہ جس کے نزدیک پاکستانی ایجنسیوں نے کروایا۔ جو دنیا کو پاکستان کے خلاف مستند چارج شیٹ فرائم کر رہا ہے کہ دیکھو میں پاکستان کا تین بار وزیراعظم رہنے والا شخص گواہی دے رہا ہوں کہ دنیا میں دہشت گردی کو ہم پرموٹ کر رہے ہیں۔
سرزمین پاکستان دنیا میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ دنیا کو یہ بیانیہ دینے والا کوئی اور نہیں اسی دھرتی پاک پر سالوں تک حکمرانی کرنے والا آج کا میر صادق (نواز شریف ) ہے جس نے اپنی کرپشن، لوٹ مار قتل عام جیسے بھیانک جرائم سے بچنے کے لئے اپنی ہی قوم اور اپنے ہی ملک کے خلاف تسلسل سے باغیانہ اور غدارانہ رویہ اپنا رکھا ہے۔
بدقسمت دھرتی پاکستان کے یہ دونوں کردار باپ بیٹی اپنے گناہوں کا انتقام بھی پاکستان اور اہل پاکستان سے لینا چاہتے ہیں۔ بیٹی مریم نواز جس نے باپ کے ساتھ جلسوں جلوسوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایک محاذ افواج پاکستان کے خلاف کھول رکھا ہے۔ جہاں سے مسلسل فوج اور عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی جاری ہے۔
پاکستان کے اداروں کو سوچنا ہو گا کہ کسی قوم کے مجاھدوں کا خون صرف اس مٹی پر آزادی کے نخلستان آباد کرتا ہے جو مٹی غداروں کے وجود سے پاک ہو۔ اور پھر وہ جہاز کب تک ڈوبنے سے محفوظ رہ سکتا ہے جس کا ملاح خود اس جہاز کے پیندے میں سوراخ کر رہا ہو۔
پاکستان کی کشتی کا تین بار ناخدا رہنے والا نواز شریف آج یا تو بلا شرکت غیرے پاکستان کا حکمران بننا چاہتا ہے یا پھر اس جہاز کے پیندے پہ پے در پے الزامات کے وار کر کے اس میں سوراخ کر کے عالمی سازشوں کی اٹھنے والی موجوں کی نظر کر دینا چاہتا ہے۔
ادارے دیکھ لیں اسٹبلشمنٹ سوچے کہ جب اس طرح لاڈلوں کو پالا پوسہ جاتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ لاڈلے بھی پھر پر پرزے نکال لیتے ہیں۔ وہ بھی آزادی کے ساتھ اپنی من مرضی چاہتے ہیں اور اگر ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ بننے کی کوشش کرے تو بگڑے ہوئے لاڈلے اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ پھر وہ لاڈلے اپنی رٹ کی بحالی کے لئے ریاست سے بھی اگر قیمت مانگنی پڑ جائے تو وہ دریغ نہیں کرتے۔
نظام سلطنت لاڈلوں کی مرہون منت نہیں بلکہ اہل لوگوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیئے۔ ہر ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر قومی سالمیت اور بقاء کے لئے کام کرے۔ لاڈلوں کی خصوصی پرورش نہیں ہونی چاہئیے کہ آخر میں وہ لاڈلے نواز شریف بن کر اپنے ہی پالنے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔ جس سے پھر صرف کسی ایک ادارے کا نقصان نہیں ہوتا بلکہ قومی بقاء اور ملکی سالمیت کے لئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔