لاہور (ویب ڈیسک) ہم نے تو ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا، اور شاید ہمارے بڑے بھی پاکستان بننے سے پہلے یہی سنتے آئے تھے، کہ کنویں کھود لیے جائیں راستے یا سڑکیں بنوا دی جائیں ، اور پل بھی بنوالیں، تاکہ رفاعی کام ہوسکے، اور لوگ یعنی عوام الناس اس سے مستفید ہوسکیں نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ اس کا کیا مطلب لیں، اور پل سے مراد Over Head Bridgeلے لیں ، اور سڑکوں کو آپ موٹروے پہ منطبق کرلیں۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ گنگا رام تو مسلمان نہیں تھا، اُس نے برصغیر میں اور خصوصاً لاہور میں گنگا رام ہسپتال ، لاہور عجائب گھر ، نیشنل کالج آف آرٹس جیسی متعدد عمارتیں بنواکر اپنا نام امر کرلیا، یہ ایک الگ بحث ہے، کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کا اجر گنگا رام کو دے گا یا نہیں، اس کا ذکر بھی قرآن پاک میں ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرانسان کو اس کسوٹی پر پرکھے بغیر اجر ضرور دیتا ہے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں مسلمانوں کے نام اس حوالے سے تو بے شمار ہیں، جنہوں نے اپنے ملک میں ہی نہیں ، پاکستان سے باہر سعودی عرب ، فرانس اور امریکہ تک ان نیکی کے کاموں میں اپنے ملک کا نام روشن کردیا ہے، جن میں فرانس کے شہرہ آفاق ڈریس ڈیزائنر بھٹی صاحب اور پاکستان کے قادر بخش خان، جن کا نام امریکی کانگریس کے باہر سنہری حروف سے کندہ ہے، اور پاکستانی تعمیراتی کاموں کے ٹھیکیدار اور سڑکیں بنانے کے ماہر مرحوم حاجی صاحب، جنہوں نے سعودی عرب میں بھی پاکستانیوں کے لیے قیام و طعام کے لیے زائرین کے لیے بڑی عمارتیں بنوائیں، جنہیں مفت میں یہ سہولیات فراہم کی تھیں اور جن کے کاموں کو سرہاتے ہوئے سعودی عرب کی حکومت نے ان کو انعامات سے بھی نوازا تھا۔ سعودی عرب کے علاوہ انہوں نے عرب امارات حتیٰ کہ لیبیا تک اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا تھا۔ سابقہ رفاعی کام کرنے والوں کے نام کا تسلسل ابھی بھی باقی ہے، ان کی جگہ میاں محمد نواز شریف ، اور وزیراعظم عمران خان نے لے لی ہے، شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین نواز شریف نے فراہم کی تھی، یہ بات میں وثوق سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ کبھی عمران خان اور میاں محمد نواز شریف کے تعلقات برادرانہ نہیں تو دوستانہ ضرور تھے۔ یہ تو منصب، اور شوق حکمرانی کا جرم ایسا ہے، کہ وہ حفیظ اللہ خان نیازی جیسے مہربانوں کو بھی جدا کردیتا ہے۔ حالانکہ حفیظ اللہ خاں نیازی وزیراعظم پاکستان کے بہنوئی ہونے کے ناطےگھر کے فرد ہیں، اور انہوں نے انگلی پکڑ کر انہیں میدان سیاست میں اتاراتھا، مگر بھلا ہو، اس اقتدار کے سراب کا کہ وہ دلوں میں دراڑیں، اور خلیجوں کے فاصلے پیدا کردیتا ہے، کہاں بنی گالہ اور اب کہاں ان کی خالہ شوکت خانم ہسپتال کے سی ای او فیصل سلطان کو میں اس وقت سے جانتا ہوں کہ جب وہ امریکہ سے کینسر کے بارے میں تعلیم حاصل کرکے آئے تھے ۔ اور ان کے والد محترم جناب ایئرکموڈور سلطان صاحب، مجھ سے عمر میں خاصے بڑے ہونے کے باوجود نہایت مخلص اور محترم دوست تھے وہ کبھی ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن بھی تھے، اردن میں پاکستان کے ملٹری اتاشی ، اور جنرل ضیاءالحق مرحوم کے اردن تعیناتی کے دوران دوست بھی تھے۔ بہرکیف یہ داستان دوستی ، درمیان میں شوق آوارگی کے لیے نہیں، روانی الفاظ کے تحت آگئی، ورنہ بے مہری ایام تو بذات خود ایسا جادو تھے کہ جو سر چڑھ کر بولتا ہے، اور وقت تو اپنے عزیز ترین رشتوں جن کے بغیر مثلاً اپنے والدین کے بغیر زندہ رہنے کا تصور نہیں کرسکتا، انہیں بھی بھلا دیتا ہے، مگر بقول حفیظ تائب ۔۔ آہ بے مہری ایام بھلاﺅں کیسے ۔۔ وہ بہاروں کی حسین شام بھلاﺅں کیسے ۔۔ کیف و سرمستی آغاز تو میں بھول چکا ۔۔ ہائے بے کیفی انجام بھلاﺅں کیسے ۔۔ درد وآلام نے کیا کیا نہیں لذت بخشی ۔۔ مہربانوں کے ہیں انوام بھلاﺅں کیسے ۔۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، کہ جب میاں نواز شریف نے اتفاق ہسپتال بنایا تھا اور اس زمانے کی یہ دھوم تھی کہ یہاں غریبوں کا علاج ہوگا۔ جیسے شوکت خانم کینسرہسپتال کی دھوم پوری دنیا میں گونجی، کہ یہاں بھی غریبوں کا علاج ہوگا، مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ شوکت خانم ہسپتال میں بھی ”درجہ بندی مریضاں“ کے تحت بہت سے مریضوں کو فارغ کردیا جاتا ہے، جب کہ زندگی اور موت کا فیصلہ قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے۔ میری اپنی بڑی ہمشیرہ کو جگر کا کینسر ہونے پر ہسپتال سے یہ کہہ کر فارغ کردیا گیا تھا ، کہ آپ تین چار دن زندہ رہیں گی، اور اللہ کے فضل سے وہ مزید اٹھارہ سال زندہ رہیں۔اب تحریک انصاف کا انصاف دیکھیں، کہ وہ آئے روز ن لیگ کو طعنے دیتے ہیں کہ آپ کوئی ایسا ہسپتال پاکستان میں نہیں بناسکے کہ جہاں آپ کا اپنا علاج ہوسکے، یہ باتیں دل کو تو بھلی ضرور لگتی ہیں، مگر میں یہ پوچھنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ آپ نے بھی تو نمل یونیورسٹی بنائی ہے، کیا آپ ایسی یونیورسٹی نہیں بناسکتے تھے، جہاں آپ کے اپنے بچے تعلیم حاصل کرتے؟ سات سال کے بعد تو ویسے بھی اولاد پر حق والدہ کے بعد والد پہ منتقل ہوجاتا ہے، بچوں کے نانا یہودی ہیں، ان کی ماں اگر مسلمان نہیں رہیں تو وہ بھی یہودی، آپ خاتون اول سے پوچھیں کہ مسلمان ہوجانے کے بعد کوئی مسلمان اپنا دین تبدیل کرسکتا ہے؟ حضور کا فرمان ہے، کہ ایک والد اپنے بچوں کو بہترین عطیہ دیتا ہے ، وہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔