لاہور (ویب ڈیسک) امن ہمیشہ آدمی کی ضرورت تھا۔ آج اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ زمین آلودگی سے بھر گئی ہے۔ پانی کے سوتے سوکھ رہے ہیں۔ دنیا سمٹ کر چھوٹی ہو گئی۔ اقوام کے باہمی تعاون کے بغیر اس کرّۂ خاک پہ زندگی آسودہ نہیں ہو سکتی۔لوٹ مار کا سدّ باب ضروری ہے، نامور کالم نگار ہارون الرشید روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔بہت ضروری ہے لیکن کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ ملک کو امن درکار ہے۔ بھارت کا روّیہ کیسا ہی کیوں نہ ہو‘ امن کا پرچم ہمیں بلند رکھنا چاہئے؛ اگرچہ سلیقہ مندی‘ احتیاط اور وقار کے ساتھ۔ جنون کی آتشیں زمین سے کبھی کچھ پیدا نہ ہوا۔ جو کچھ پیدا ہوتا ہے‘ وہ سکون‘ قرار‘ ٹھہرائو‘ ریاضت اور حکمت کے ساتھ۔ افغانستان قبائلی ہے۔ قبائلی سماج ایک پیہم تاریخی عمل سے جدید معاشرے میں ڈھلتا ہے۔ راتوں رات روسیوں نے کابل میں کمیونزم مسلّط کرنے کی کوشش کی تو خاک چاٹی۔ فوجی طاقت کے بل پر امریکیوں نے جمہوریت‘ نافذ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ تاریخ کے چوراہے پر وہ نامراد کھڑے ہیں۔احمد شاہ ابدالی سے لے کر ظاہر شاہ تک‘ افغانستان کے فیصلے ”لویہ جرگہ‘‘ میں ہوتے رہے۔ اب بھی اسے ایک لویہ جرگہ ہی درکار ہے… ایک عظیم پنچایت۔ مغرب کے پشتونوں، شمال کے ازبکوں اور ترکمانوں سے لے کر وسطی افغانستان کے ہزاروں اور پنج شیر آبادی کے تاجکوں سمیت سبھی جس میں شامل ہوں۔ اڑھائی سو سال سے پشتون حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ ہاں! لیکن دوسروں کی شراکت اور اعانت سے۔ مثلاً سول سروس میں تاجکوں کا حصہ زیادہ رہا کہ تعلیم میں زیادہ ہیں۔امریکیوں نے حماقت کی کہ افغان افواج کو شمال سے بھر دیا۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کبھی قابل عمل نہ ہو گا۔ یہ جنرل محمد ضیاء الحق کا عہد تھا۔ عربوں کے ایک شاہی خاندان نے‘ جن کی حفاظت پاک فوج کے دستے کیا کرتے‘ ان سے کہا کہ فلاں مکتب فکر کے لوگ محافظوں میں شامل نہ کیے جائیں۔ جنرل نے انکار کر دیا۔ بد ترین غلطیوں کے باوجود پاک فوج اور سول سروس فرقہ وارانہ اثرات سے پاک ہے۔کوئی بھی فوج بتدریج قومی فوج بنتی ہے۔ افغانستان ابھی تک قبائلی ہے۔ اس حقیقت کو ملحوظ رکھ کر ہی بنیادی فیصلے صادر کیے جا سکتے ہیں۔ افغان فوج کی تشکیل بدلنا ہو گی اور افغان حکومت کی بھی۔ میرے محترم اور عزیز دوست گلبدین حکمت یار کہا کرتے: قبائل کی جگہ اب احزاب نے لے لی ہے یعنی پارٹیوں نے۔ قوموں کی فصل کہر اور دھوپ کے ان گنت موسموں میں پکتی ہے۔ فطرت کے اٹل اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ برقرار رہنے والی تبدیلیاں‘ رفتہ رفتہ، بتدریج وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ دیہی بلوچستان‘ دیہی سندھ‘ قبائلی پٹّی اور سرائیکی خطے میں پنچایت کی اہمیت‘ آج بھی عدالت سے زیادہ ہے۔جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالواسع نے پوچھا ہے: افغانستان میں ان لاکھوں انسانوں کے لہو کا ذمہ دار کون ہے‘ جو بے گناہ تھے‘ جو بے سبب مارے گئے؟اہل تقویٰ کے سردار امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے: ”قرآن کریم کی ایک آیت ایسی ہے‘ جو مظلوم کے سر پہ سائبان اور ظالم کے سینے میں تیر ہے۔ ”وما کان ربک نسیّا۔‘‘ اور تیرا رب بھولنے والا نہیں‘‘…جلد یا بدیر، ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، ہر کام کا ایک نتیجہ ۔ جلد یا بدیر، افراد یا اقوام ‘ ہر ایک کو اپنے اعمال کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ عشروں تک افغانستان میں درندگی کی قیمت بھی ایک دن چکانا ہو گی ۔ کون جانتا ہے کہ یہ قیمت کیا ہو گی۔