ملتان(ویب ڈیسک)فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے ملتان میٹرو بس کیس میں پاکستان سے چین جون 2016 سے مارچ 2017 کے دوران 28 لاکھ ڈالرز مالیت کی 49 مختلف منتقلیوں کا سراغ لگا لیا تاہم جب ایف آئی اے اس پوری کہانی کے مرکزی کردار تک پہنچی تو دسمبر 2017 میں کیس اچانک قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیا گیا۔
روزنامہ جنگ اور دی نیوز کے نمائندے فخر درانی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے چینی کمپنی یابیٹ کو رقم دو پاکستانی کمپنیوں اے جی انٹرنیشنل اور ہورائزن انٹرنیشنل کے ذریعے دبئی کی کمپنی لندن سلک کو بھیجی گئی جہاں سے لندن سلک نے یہ رقوم آگے چینی کمپنی یابیٹ کو بھیجیں۔جب ایف آئی اے نے ہورائزن انٹرنیشنل کے مالک سے رابطہ کیا تو اس نے ان رقوم کی تمام تفصیلات اور ریکارڈ ایف آئی اے حکام کو پیش کردیا تاہم اسی دوران ایف آئی اے سے یہ کیس نیب نے ٹیک اوور کرلیا اور ایف آئی اے کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے تمام تحقیقات رک گئی۔دی نیوز کی تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ چینی کمپنی کو پیسہ بھیجنے والی دو پاکستانی کمپنیوں میں سے ایک ہورائزن انٹرنیشنل سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹر ہے لیکن ایس ای سی پی کے ریکارڈ کے مطابق محمد اسلم خان کا نام، فون نمبر اور پتہ کمپنی کے ڈائریکٹرز کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ہورائزن انٹرنیشنل کا مالک دراصل ایک “مہرساز” ہے، دی نیوزکے رابطہ کرنے پر اس نے بتایا کہ اسے حارث نامی ایک شخص نے یہ آفر کی کہ آپ کے نام پر امپورٹ ایکسپورٹ کی کمپنی بناتے ہیں جس کے بدلے اُسے ہر ماہ مناسب پیسے مل جائیں گے۔ مہر ساز اسلم خان کے مطابق اُس سے اُن لوگوں نے اتھارٹی لیٹر پر دستخط لے لیے اور اس کے بعد علم نہیں کہ ان لوگوں نے کیا کیا۔