لاہور (ویب ڈیسک) دکھ یہ ستائے جارہا، مقبوضہ کشمیر ظلم پر اقوام عالم کچھ نہیں کر رہی، حالانکہ 70سال ہوگئے مسئلہ کشمیر کو، اقوام عالم نے کیا اکھاڑ لیا، دکھ یہ ستائے جارہا، اقوام متحدہ کردار ادا نہیں کررہا حالانکہ فلسطین ہو یا کشمیر اقوام متحدہ نے کب کوئی تیس مار خانی کی، نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔دکھ یہ ستائے جارہا، مسلم اُمّہ چپ، حالانکہ میانمار ہو یا سوڈان، شام ہو یا عراق، بھوکے پیاسے یمنی، لبنانی ہوں یا مظلوم ہندوستانی مسلمان، مسلم اُمّہ نے خیر سے کب کوئی تیر چلائے، دکھ یہ ستائے جارہا، او آئی سی نے مایوس کر دیا، جان بوجھ کر بھولے بنے بیٹھے چالاک سجنو، تمہیں بھی معلوم، او آئی سی کب امیدوں پر پورا اتری، ویسے بھی جب او آئی سی اجلاس میں آنجہانی سشما سوراج آکر بیٹھ گئی، جب او آئی سی مکہ ڈکلیئریشن سے کشمیر نکلا، تب سمجھ کہاں تھی، تب دماغ شریف کیا گھاس چرنے گیا ہوا تھا، دکھ یہ ستائے جارہا، مقبوضہ کشمیر بزور طاقت کیوں آزاد نہیں کروایا جارہا، حالانکہ ڈرائنگ روموں، دفتروں، ٹی وی اسکرینوں پر سلطان محمود غزنوی بنے بیٹھے ان سورماؤں سے کوئی پوچھے 70برسوں سے کیوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، کروا لیتے بزورِ طاقت کشمیر آزاد، 65کی جنگ، شملہ پر راضی، 71کی جنگ، تاشقند پر راضی، کارگل، کلنٹن پر راضی، کیوں نہیں کروایا کشمیر آزاد، ایک مفت کا مشورہ، ویسے لڑنے سے پہلے عراقیوں، شامیوں، افغانیوں سے ایک بار ضرور پوچھ لینا لڑائی ہوتی کیا، لڑائی کہتے کسے، لڑائی سے ملا کیا۔یادش بخیر، بڑی باتیں، بڑی لڑائیاں چھوڑیں، مشرف دور، اسلام آباد، لال مسجد معاملہ، دوچار کو چھوڑ کر ہر ارسطو ایک ہی رٹ لگائے بیٹھا تھا، کہاں گئی حکومت، کہاں گئی ریاست، کہاں ہے ریاست کی رٹ، اسلام آباد کے وسط میں ایک مسجد، چند مٹھی بھر شرپسند عناصر اور حکومت بے بس، یہ ہے نیوکلیئر ملک کا حال، پھر لال مسجد آپریشن ہوا اور وہی جن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بندوق پکڑ کر خود حملہ کر دیں، وہی گلو گیر لہجوں، آنسوؤں بھری آنکھیں لئے ہر ایک کو بتاتے پھر رہے تھے کہ ظلم کی انتہا ہو گئی، حکومت نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف بندوق اٹھا لی، وہی جو ریاستی رٹ دیکھنا چاہتے تھے وہی کہتے پھر رہے تھے ریاست تو ماں جیسی، ماں بھلا اپنے بچوں کو ایسے مارا کرتی ہے لہٰذا یہ لکھ کر رکھ لیں، آج جو حریت پسند جنگ کے طبل بجار ہے، مارنے، مرنے پہ اکسا رہے، خدانخواستہ کل کلاں کچھ ہو گیا، ان میں سے جو بچ گیا وہ یہی کہہ رہا ہوگا، بھائی جب عمران خان کا ہیرو ٹیپو سلطان ہوگا تب ملک کے ساتھ یہی ہونا تھا، بھائی سلیکٹڈ تھا اس لئے تباہ کروا دیا، الیکٹڈ ہوتا تو مشورہ کرتا، صلاح لیتا، کوئی بیک ڈور ڈپلومیسی، کوئی سفارتکاری، بھلا جنگ بھی کسی مسئلے کا حل ہوتی ہے۔بات کہاں سے کہاں نکل گئی، واپس آتے ہیں اپنے موضوع پر، دکھ یہ ستائے جا رہا، مسلم ممالک مودی کو ایوارڈز دے رہے حالانکہ ان ملکوں کا کوئی مسلم برادر ہم سے پوچھ لے، اخی، حبیبی، یہی گجرات سمجھوتہ ایکسپریس، بابری مسجد والا دہشت گرد مودی ہی تھا، یہی مقبوضہ کشمیر میں آئے روز مسلمانوں پر ظلم ڈھانے، کرفیو والا مودی ہی تھا، جسے آپکے کشمیری وزیراعظم نے ہمراہ اجیت ڈوول گھر بلا کر ہیپی برتھ ڈے کیک کٹوایا، کیوں؟ اخی، حبیبی، ہمارے ایوارڈز پر تھوتھو کرنے سے پہلے اس پگ کو یاد کرو جو اس ہٹلر، فاشسٹ مودی نے میاں صاحب کو پہنائی اور جسے اگلے دن میاں صاحب نے فخریہ طور پر پہن کر اپنی نواسی کی باراتیوں کا استقبال کیا، اخی، حبیبی، تمہیں ہمارے ایوارڈز ٹائمنگ پر بڑا اعتراض مگر جب تم نے مودی کو بلایا تھا، اس سے کتنے دن پہلے مودی نے ڈھاکہ میں یہ کہا مجھے فخر میں نے پاکستان توڑنے میں عملی طور پر حصہ لیا، کتنے گھنٹے پہلے کابل میں کھڑے ہو کر پاکستان کی بدخوئیاں، برائیاں کیں، اپنی ٹائمنگ ٹھیک، ہماری ٹائمنگ غلط۔ یا اخی، یاحبیبی، سوچ کر بتاؤ، پچھلے 40برسوں میں کب تمہارے حکمرانوں کی اولین ترجیح کشمیر تھی، کب ہمیں کہا کہ مقبوضہ کشمیر پر ہماری مدد کرو، تمہارے زرداری صاحب تو ہمیشہ ہمارے ساتھ کاروبار کی باتیں کرتے رہے، تمہارے وزیراعظم، وزیر خارجہ نواز شریف تو ہمیشہ ہمارے ساتھ ملیں، فیکٹریاں لگاتے رہے، تمہارے وزیر خارجہ خواجہ آصف، پاکستانی ویژن، سی پیک کے محافظ احسن اقبال، خزانچی اسحق ڈار سمیت تمہارے بڑے ہم سے اقامے لیتے، ذاتی فائدوں کی درخواستیں کرتے رہے، اخی، حبیبی، مودی ہم سے بھارت کی بات کرتا رہا، تمہارے سب بڑے اپنی اپنی باتیں کرتے رہے، مودی بھارت میں سرمایہ کاری کیلئے کہتا رہا، تمہارے بڑے اپنی اپنی ’سرمایہ کاری ‘ میں پڑے رہے، مودی ہمارے ہاں بھارتیوں کو بھجواتا رہا، تمہارے بڑے اپنی اولادوں، رشتہ داروں، چہیتوں کو سیٹل کرتے رہے، اخی، حبیبی، جو مودی نے مانگا اسے ملا، جو تم نے مانگا تمہیں ملا، اب یہ درمیان میں کشمیر گھسیڑ کر غصہ کاہے کا، ویسے بھی اخی، حبیبی، وہ قت بھول گئے ہو، جب عراق نے کویت پر قبضہ کیا، ہم نے مدد مانگی تم انکاری ہو گئے، جب یمن لڑائی میں ہم نے تمہاری طرف دیکھا، تم پہاڑ پر جا بیٹھے، جب لبنان معاملے پر تم سے بات کی، تم پیچھے ہٹ گئے اور وہ نمائش معاملے پر ہمیں نہیں ترکی کو ووٹ دیدینا۔اخی، حبیبی، یہ بھی یاد رہے، تم نے جو بھی ہمارا کام کیا، ہم سے ریال، درہم لیا، باقی چھوڑو، ابھی کل ہی ہم نے تمہارے عمران خان کو ڈالر بھی دیا، ادھار تیل بھی اور اخی، حبیبی، بھارت کو اقوام متحدہ میں ووٹ دیدیا، مودی کیلئے فضائی حدود کھلی رکھی ہوئی، افغانستان رستے والی تجارت جاری، کرتارپور راہداری محبتیں قائم مگر گلے، شکوے ہم سے، اخی، حبیبی، کشمیر تمہاری شہ رگ، جھکنے نہ بکنے والی قیادت تمہارے پاس، ٹرمپ تمہارے وزیراعظم کو مائی بیسٹ فرینڈ کہہ رہا، اپنے مسائل خود حل کرو، بہت ہو گئی جذبات نگاری، مسلم امہ والی خیالی، خوابی محبتیں، بھائی بھائی ڈرامے، حقیقت پسند بنو، مفت کی روٹیاں توڑنا بند کرو، کب تک ہمارا مال کھا کر ہمیں ہی میاؤں میاؤں کرتے رہو گے، ہم نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا کہ کھلائیں بھی اور گالیاں بھی کھائیں۔