جمعہ کو لکھا جانے والا کالم ہفتہ 18 مئی شائع ہوا تو اُس کی سپرلیڈ میں موجود تھا کہ حکومت نے 30 فیصد گاڑیاں بجلی سے چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مستقبل قریب کی تبدیل شدہ دنیا کے حوالہ سے دیگر بہت سی مثالوں کےساتھ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی مثال بھی موجود تھی کہ ایسی گاڑیاں ماحولیات کے علاوہ انشورنس کمپنیوں کے ساتھ کیا کریں گی…. بہرحال عرض کرنے اور اُس تکلیف دہ قلمی ڈرل کا مقصد یہ تھا اور ہے کہ ہم میں سے کچھ کو تو یہ احساس ہونا چاہئے کہ دنیا کدھر جا رہی ہے اور ہمارے مختلف قسم کے نام نہاد لیڈروں نے ہمیں کن لغویات و فروعات میں الجھایا پھنسایا ہوا ہے، دنیا کے کنسرنز کیا ہیں اور ہمارے کیا ہیں، ترقی یافتہ قوموں کی ترجیحات کیا ہیں اور ترقی پزیر دنیا کی کیا ہیں۔ بائی دی وے ضمناً یہ گستاخی بھی کرتا چلوں کہ ترقی پزیر دنیا ہے تو دراصل غیر ترقی یافتہ ہی، جسے عالم فاضل دنیا تکلفاً اور احتیاطاً لاڈ سے ’’ترقی پزیر‘‘ کہتی ہے کیونکہ بیچاری علم و ہنر کے حوالہ سے قدم قدم پر ترقی یافتہ دنیا کی محتاج اور دست نگر ہے۔ ہماری تو کرنسیاں بھی ڈالر سے رگڑا کھا جائیں تو منہ کے بل جا گرتی ہیں، اعلیٰ تعلیم کا مقامی طور پر حصول ناممکن ہے، نت نئے علوم کا سیلاب کہیں اور سے آتا ہے، ہم علم حاصل نہیں کرتے، وہ علوم ’’ایجاد‘‘ کرتے ہیں۔
زندہ قوم ہیں لیکن قومیتیں کہیں اور کی ڈھونڈتے ہیں، جو افورڈ کر سکے وہ یہاں سے دانت نکلوانا اور گنجے سر پر بال لگوانا بھی پسند نہیں کرتا۔ سیر و تفریح کیلئے لُڈن نہیں لنڈن، سمبڑیال نہیں مونٹریال جاتے ہیں حالانکہ ’’ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں‘‘ اور دھرتی بھی یہی سونی ہے لیکن جائیداد سرے، پارک لین، بیورلے ہلز، فیئر فیکس وغیرہ میں ہو تو کیا کہنے۔ہم ہیں منافقت کے سمندر کی مچھلیاںاب چلتے ہیں مستقبل قریب بلکہ بہت قریب کی چند مزید تبدیلیوں کی طرف مثلاً تھری ڈی پرنٹنگ۔ گزشتہ 10 سال کے اندر اندر سستی ترین تھری ڈی پرنٹنگ 18000ڈالر سے گر کر 400 ڈالر تک آ گئی ہے۔ یہ بھی ٹیکنالوجی کا حسن ہے کہ بہت ہی مہنگی سے شروع ہو کر دیکھتے ہی دیکھتے عام آدمی کی پہنچ تک بھی پہنچ جاتی ہے اور ہاں یہ 18000 ڈالر سے گر کر 400 ڈالر تک ہی نہیں آئی، اِس کی رفتار میں بھی سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں جوتوں کی بڑی کمپنیاں ابھی سے تھری ڈی پرنٹنگ شروع کر چکی ہیں۔ یہی کام ذرا دور افتادہ ایئر پورٹس پر ہوائی جہازوں کی سپیئرز کے ساتھ بھی شروع ہو چکا ہے۔ سپیس اسٹیشن کے پاس بھی اب اک ایسا پرنٹر ہے جس نے بڑی تعداد میں سپیئر پارٹس کی ضرورت ختم کر دی ہے۔اِسی سال کے اختتام تک نئے سمارٹ فونز میں تھری ڈی سکیننگ ممکن ہو گی، آپ چاہیں تو اپنا پائوں تھری ڈی سکین کر کے اپنے لئے پرفیکٹ جوتا سکین کر سکتے ہیں۔ لاگت میں اتنی کمی ہو گی کہ سن کر ہی دماغ گھوم جائے لیکن مجھے فرق نہیں پڑتا کیونکہ میری کھوپڑی کے اوپر تو بال ہیں، اندر کچھ نہیں۔میں تربیت یافتہ پیشہ ور مترجم نہیں، شاید انصاف نہ کر سکوں اِس لئے یہ چند سطریں انگریزی میں ہی چلنے دیں۔ کاروبار کے مواقع : اگر آپ نے ابھی تک اکائونٹ نہیں بنایا تو , اپنے آپ سے پوچھو “مستقبل میں، کیا آپ کو لگتا ہے ہم ایسا کریں گے؟” اور اگر جواب ہاں ہے، کیا آپ یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ آپ کو بہت اچھا لگ رہا ہے؟ 20ویں صدی کا ہر آئیڈیا 21ویں صدی کا مقبرہ سمجھیں۔آئندہ 20 سالوں میں 70-80 فیصد جابز کا خاتمہ یقینی ہے اور اُن کی جگہ بیشمار نئے جابز معرض وجود میں آ جائیں گے لیکن یہ کہنا خاصا مشکل ہے کہ پرانے جابز کی جگہ نئے کتنے دیر میں متعارف ہوں گے۔ آن لائن شاپنگ فوری، سستی اور آسان ہونے کی وجہ سے شاپنگ مالز تو کھنڈر ہی سمجھو۔ رہ گئی زراعت تو زرعی روبوٹ کا زمانہ ہو گا۔ تیسری دنیا کے کسان، کسان نہیں فیلڈ منیجرز ہوں گے، جسمانی لیبر ختم سمجھو لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انگوٹھا چھاپ اِس رول میں کیسے فٹ ہوں گے۔ کیڑے مار دوائوں کی جگہ کیڑے مار پروٹین ہو گی جو گوشت سے بڑھ کر ہو گی اور اُسے متبادل پروٹین کے ذریعہ کہا جائے گا۔ایک ایپ ہے جو موڈیز کہلاتی ہے جو اِس وقت بھی بتا سکتی ہے کہ حضور کس موڈ میں ہیں۔ 2020 تک اک اور ایپ آپ کے چہرہ کے تاثرات بتایا کرے گی کہ کہیں آپ جھوٹ تو نہیں بول رہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ اِن ٹکے ٹوکری سیاست دانوں کا کیا بنے گا جو پیداوار ہی جھوٹ کی ہیں۔ بِٹ کوئین کی بدمعاشیاں اور شرارتیں علیحدہ۔فی الحال متمول معاشروں میں زندگی کا دورانیہ 3 ماہ سالانہ کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ 4سال پہلے تک عرصہ حیات 79 سال تھا، اب 80 سال ہے اِس اضافے میں اضافہ مسلسل بڑھ رہا ہے سو 2036 تک عمر میں ہرسال ایک سال کا اضافہ ہو گا۔ 2020 تک 70 فیصد انسانوں کے پاس سمارٹ فون ہوں گے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ورلڈ کلاس ایجوکیشن تقریباً ہر کسی کی رینج میں ہو گی تو اِس وقت کی منافع بخش ترین ’’ایجوکیشن انڈسٹری‘‘ کا حشر نشر نہ ہو گا تو کیا ہوگا؟اِس وقت بھی درجہ اول کی مہذب دنیا میں شہرہ آفاق ’’خان اکیڈمی‘‘ سکول جاتے ہر بچے کی پہنچ میں ہے۔ انڈونیشیا میں سافٹ ویئر ریلیز ہو چکا عنقریب عربی میں بھی ہونے والا ہے جس کے بعد چینی اور سواحلی بھی شامل۔ مختصراً یہ کہ مختلف انسانی شکلوں اور حلیوں میں جس جس قسم کے طاغوت نے انسانوں کو بری طرح جکڑ کر جہالت اور جذباتیت کے عقوبت خانوں میں قید کررکھا تھا، اُن کے جن جپھے اور شکنجے ٹوٹنے کا وقت دور نہیں جو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یعنی علم وہنر کی عظیم فتح ہوگی۔ ہائے یہ علم وہنر جو ہماری گمشدہ میراث تھی لیکن ہمارے اندر اِس بات کا احساس ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ہمیں جمہوریت کے نام پر موروثیت، علم کے نام پر جہالت کے اندھے کنوئوں میں دھکیل دیا گیا۔ کپڑے ہی نہیں جدید علوم، آلات، سہولیات، اقتصادیات سب کچھ لنڈے کا لیکن خیر ہے …. ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔پرواز ہے دونوں کی اِسی ایک جہاں میںکرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اورکہاں یہ دنیا ….. کہاں وہ دنیا (ختم شد بلکہ بالکل ہی ختم شد)