لاہور (ویب ڈیسک) لوگ کہتے ہیں میں زیادہ تلخ ہوں۔ کیسے نہ ہوں‘ جب ایک طرف قاسم جیسے بچوں کی کہانیاں پڑھتا ہوں اور دوسری طرف حکمرانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیاں ‘ خرچے اور اللے تللے دیکھتا ہوں۔ ایک سابق بیوروکریٹ نذر محمد چوہان‘ جو آج کل امریکہ میں ہیں‘ کے بلاگز پڑھتا ہوں تو دل دکھتا ہے۔
نامور کالم نگار رؤف کلاسرا روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جب وہ لکھتے ہیں کہ نیویارک میں ہمارے سفیروں نے کہاںکہاں ہزاروں ڈالرز کرائے پر پرتعیش فلیٹس لے رکھے ہیں۔ نیویارک کے مہنگے علاقے مین ہیٹن میں فلیٹس‘ بی ایم ڈبلیو گاڑی‘ شوفرز‘ نوکر چاکر‘ ہر سفیر کے پاس ہیں۔ پچھلے دنوں نیویارک سفارت خانے کے بابوز نے ایک ثقافتی شو کے نام پر ایک لاکھ ڈالرز سے زیادہ خرچہ کیا۔ آپ کسی بھی سفارت خانے کے اخراجات دیکھ لیں‘ آپ کو یہی کہانی ملے گی۔ حسن رضا کی مرتب کردہ پنجاب میں کی گئی کرپشن کی کہانیاں پڑھیں تو آپ دل تھام کر بیٹھ جائیں۔شہباز شریف کے بابوز نے چار ارب روپے خرچ کر دیے اور پانی کی ایک بوند نہیں ٹپکی۔ حکمرانوں کو یہ فرض سونپا گیا کہ اللہ نے آپ کو عقل دی ہے اور آپ خود امیر ہیں لہٰذا آپ غریب رعایا کو امیر کرنے کا سوچیں ۔ بادشاہوں نے سوچا‘ رعایا کا کیا ہے بعد میں بھی امیر ہوجائے گی‘ پہلے اپنے بچوں اور دامادوں کو ارب پتی تو بنا دیں۔ شہباز شریف صاحب کا داماد بننے سے پہلے علی عمران کی گوالمنڈی لاہور میں چند دکانیں تھیں۔ آج وہ اربوں روپوں کے پلازوں کا مالک ہے۔
شہباز شریف صاحب کے داماد کے پلازے میں دو فلورز صاف پانی کمپنی نے کرائے پر لیے۔ پانچ کروڑ روپے ایڈوانس دیا اور چند دن بعد چیف ایگزیکٹو کو پسند نہ آیا تو کہیں اور دفتر لے لیا۔ پانچ کروڑ روپے علی عمران لے اُڑا۔ سب سمجھتے تھے شہباز شریف کے برخودار سلمان شہباز زیادہ سمجھدار ہیں‘ اب پتا چلا ہے کہ ایسی ایسی جائیدادیں اور پاور پلانٹس میں ان کے خفیہ حصص نیب کے ہاتھ لگے ہیں کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگا ئے۔ دوسری طرف سندھ میں زرداری صاحب کو داد دیں‘ انہوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ریڑھی والوں سے لے کر فالودہ فروش تک کو ارب پتی بنا دیا۔ پاکستانیوں نے لندن‘ دبئی تک کو امیر بنا دیا۔ وہاں لاکھوں کروڑں کی جائیدادیں بن گئیں ‘ پاکستان مقروض سے مقروض تر ہوتا گیا۔ کبھی میرا خیال تھا‘ جہانگیر ترین نے پیسہ اپنی محنت سے کمایا‘ لیکن میرا سب خیال اس وقت زمین بوس ہوگیا جب میں نے سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ پڑھا جس میں انہیں مستقل نااہل قرار دیا گیا ۔ چیف جسٹس‘ جناب جسٹس ثاقب نثار کی لکھی ہوئی وہ ججمنٹ جو انہوں نے جہانگیر ترین مقدمے میں لکھی ‘کوئی بھی پڑھ کر دیکھ لے۔
کالے دھن کے درشن کرنے ہوں تو وہ ججمنٹ پڑھ لیں ‘کیسے شرافت اور ایمانداری کا لبادہ اوڑھے لوگ بے نقاب ہوئے ہیں۔ جہانگیر ترین کیس کی یہ ججمنٹ پاکستان کی ٹیکسٹ بکس کا حصہ ہونی چاہیے تاکہ نئی نسلوں کو پتا چلے کہ انسان ارب پتی بن جائے تو بھی چند ٹکوں کے لیے وہ کسی حد تک گرنے کو تیار ہوتا ہے۔ جو فراڈ جہانگیر ترین نے کیے ان جرائم کی سزا چودہ سال تھی اور بھاری جرمانہ ۔ وہ خوش قسمت رہے کہ فراڈ اس وقت کیا‘ جب وفاقی وزیر تھے۔ وزیر نے سب محکموں کو سنبھال لیا اور پتلی گلی سے نکل گئے۔ قدرت کا انتقام دیکھیں‘ جو فراڈ کر کے کروڑوں روپے ملازمین کے نام پر کمائے وہ سب ضائع گئے۔ سب کچھ ہیلی کاپٹر پھونک گیا۔ لوگوں سے لوٹا گیا مال تحریک انصاف پر لگایا ‘ سرمایہ ضائع گیا۔ کسی نے سبق سیکھنا ہو تو جہانگیر ترین کے بارے میں سپریم کورٹ کی لکھی ہوئی ججمنٹ کو پڑھے اور ان کی نااہلی سے سیکھے۔جہانگیر ترین کے مالی اور خانساماں کی پوری کہانی کسی وقت لکھوں گا تاکہ ہمیں عبرت ہو۔ دو نمبری کر کے مال بنانے اور بادشاہ گر بننے کی خواہشات کی پوٹلی اٹھائے اندھا دھند بھاگنے کا کیا انجام ہوا ؟برسوں کی مسافت کے بعد بھی جہانگیر ترین جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں۔ اپنے گھر کے خانساماں اور مالی کے نام پر لوگوں کو لوٹ کر آخر خود بھی سیاست میں لٹ گئے۔ اسے قدرت کا انتقام کہیں یا انصاف‘ آپ کی مرضی۔