counter easy hit

کہیں آپ بھی فکر و نظر سے محروم تو نہیں

Subramanian Swamy

Subramanian Swamy

تحریر : محمد آصف اقبال
بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی نے حیدر آباد یونیورسٹی میں دلت ریسرچ اسکالر روہت ویمولا کی خودکشی کے معاملے میں تحریک چلانے والے طالب علموں کے بارے میں قابل اعتراض رائے زنی کی ہے۔سوامی نے مخالفت کرنے والے والوں پر ہی متنازعہ بیان دے ڈالا ہے۔ مخالفت کرنے والوں کا موازنہ انہوں نے نظام کا پیچھا کرنے والے کتوں سے کیا ہے۔ٹویٹ میں سوامی نے لکھا ہے حیدر آباد میں چل رہی مخالفت ڈرامہ بن گئی ہے۔اقتدار مخالف لیفٹ اور دیگر ڈرامہ کر رہے ہیں۔یہ اقتدار کی مخالفت کے پیچھے ریسرچ والے کتوں کی طرح ہے۔دوسری جانب ویمولا کی خودکشی کے خلاف اٹھ رہی آوازوںکے درمیان آر ایس ایس نے کہا ہے کہ یونیورسٹی کے طلباکسی غدار وطن کی حمایت میں تحریک کس طرح کر سکتے ہیں؟پرچارک ڈاکٹرمنموہن وید نے ناگپور کے ریشمی باغ واقع سنگھ آفس میں یہ سوال اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا کی مخالفت کرنے والے عناصر یونیورسٹی میں کس طرح ہو سکتے ہیں؟معاملہ یہ ہے کہ روہت ویمولا حیدرآباد مرکزی یونیورسٹی کے تحقیق کے طالب علم تھے۔یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں اور ان کے چار ساتھیوں کو معطل کر دیا تھا۔اس کی مخالفت میں وہ تحریک چلا رہے تھے۔17جنوری کو روہت نے پھانسی لگا کر خودکشی کرلی تھی۔روہت کی خودکشی کے سوال پر وید نے اس واقعہ کو ذات کے نام پر معاشرے میں امتیاز کھڑے کرنے کی بدقسمت کوشش سے تعبیر کیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ روہت ویمولا کی خودکشی نے ،اخلاق کی موت اورایوارڈ واپسی کے بعد ایک بار پھر بڑے سوالا ت پیدا کر دیے ہیں۔سوالات میں سب سے بڑا سوال منووادی نظام ہے۔جس نے انسانوں کو انسانوں ہی کے درمیان چھوٹا بڑا اورعزت و ذلت گروہوںمیں تقسیم کیا ہے۔وہیں موجودہ واقعہ کے پس منظر میں ہندوسماج کے غیر منصفانہ ذات پات کے نظام کو ایک بار پھر تنقید کا سامنا ہے۔کہا جا رہا ہے کہ ایک انسان اور اسی کے طرح کے دوسرے انسان کے درمیان اعلیٰ و ادنیٰ کا فر ق صرف اس بنا پر کیسے ممکن ہے کہ وہ دہ الگ الگ خاندانوں میں پیدا ہوئے؟کیا ایک دلت کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ اور برہمن یا کسی اور بڑی ذات کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ ،صرف گھروں یا خاندانوں کی تبدیلی سے عزت و ذلت کے مقام پر فائز ہو سکتے ہیں؟یا ا سلام کے دیئے گئے اصول کے مطابق ہی کوئی انسان دوسرے سے اعلیٰ و ادنیٰ ہوگا جبکہ وہ اخلاق و کردارکے پیمانہ پر بھی اعلیٰ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں آریوں کی آمد ہی نے ہندوسماج کو طبقاتی کشمکش میں مبتلا کیا ہے۔اس کے باوجود آزادی کے بعد اور اس سے قبل ہی دلت سماج کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ وہ منو وادی سماج کا حصہ نہیں بن سکتا۔لہذا اپنی مخصوص شناخت کو برقرار رکھنے یا ذ لت سے اٹھ کر عزت کی زندگی جینے کے لیے ایک جانب جہاں انہوںنے علم و حرفت میں مقام بنانے کی سعی و جہد کی ۔وہیں ساتھ ہی ساتھ حصول اقتدار میں بھی منظم و منصوبہ بند جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔اس لحاظ سے انہیں جو سب سے بڑا دشمن نظر آیا وہ ‘ہندوتو’کے حاملین تھے اور ہیں۔اس پورے پس منظر میں آزادی کے بعد کے ہندوستان کو چار بڑے افکار و نظریات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک ہندوتو کے حاملین،دوسرے کانگریسی فکر کے حاملین،تیسرے اشتراکیت کے حاملین یا لیفٹ پارٹیاں اور چوتھے بہوجن سماج یا دلت طبقات۔اور دیکھا جائے تو ان چاروں ہی طبقات کو آزادی کے بعد دو بنیادی چلینجز کا سامنا ہوا ہے۔ایک،نئے حالات میں ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنا اور دوسرا،ہندوسماج کے جذباتی اتحاد کے لیے مذہب کی بجائے کوئی متبادل بنیاد فراہم کرنا۔پروفیسر محمد رفعت اپنی کتاب فرد،معاشرہ اور ریاست میں لکھتے ہیں ملک کی تحریک آزادی کی قائد کانگریسی فکر نے پہلے چیلنج کا جواب اس طرح دیا کہ ذات پات کے نظام میں بعض سطحی اور ضمنی اصلاحات کیں۔اور دوسرے چیلنج میں انہوں نے نیشنلزم کو اتحاد کی نئی بنیاد کے طور پر اختیار کیا۔

ہندوتو کے حاملین نے بھی ان دونوں چیلنجوں کا جواب دیا۔پہلے چیلنج کے سلسلے میں ان کا رویہ کانگریسی فکر کے حاملین کے رویہ سے ہم آہنگ تھا۔فرق صرف اتنا تھا کہ کانگریسی چھوت چھات کے خاتمہ اور ہریجن کی نئی اصلاح کے رواج کے کاموں کو زور وشور سے کرتے تھے،جب کہ ہندتو کے علم برداروں نے عام طور پر ذات پات کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کی۔درحقیقت ذات پات کے نظام کے مکمل خاتمہ کے قائل کانگریسی تھے نہ ہی ہندوتو کے علم بردار،البتہ ضمنی اصلاحات کے رواداردونوں تھے۔وہیں دوسرے چیلنج کے جواب میں ہندوتو کے علم برداروں کا یہ خیال تھا اور ہے کہ کانگریس کا مبہم’نیشنلزم’ ایک بے جان تصور ہے اور ہندوسماج کے اندر نیا حوصلہ،امنگ اور ولولہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔مزید برآں یہ خرابی بھی ہے کہ تہذیبی اقلیتوں کی انفرادیت باقی رہتی ہے اور وہ کسی وقت بھی مضبوط ہوکر ہندوسماج کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔چناں چہ ہندتو کے حاملین محض نیشنلزم کو کافی نہیں سمجھتے،بلکہ ‘کلچرل نیشنلزم’ کا تصور پیش کرتے ہیں۔

کلچر ل نیشنلزم کا تقاضہ ہے کہ ملک کے ایک ایک فرد کے اندر اس ملک کی روایتی تہذیب و تاریخ ،بزرگوںو رسوم و رواج سے گہری جذباتی وابستگی پیدا کی جائے۔یہ باشندے محض ایک سیاسی وحدت نہ بنیں بلکہ ان کے جذبات بھی اس ملک کے روایتی ڈھانچے میں ڈھل جائیں۔کلچرل نیشنلزم کے اس پروگرام کو بروئے کار لانے کے لیے وہ یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ تہذیبی انفرادیت ختم ہو جائے۔اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اس کلچرل نیشنلزم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو وہ بہت ہی حقارت آمیز سمجھتے ہیں۔

حقارت آمیزی کے پس منظر ہی میں دیا جانے والا وہ بیان ہے جسے فی الوقت سبرامنیم سوامی نے اقتدار کی مخالفت کے پیچھے ریسرچ والے کتوں سے تشبیہ دی ہے۔اور یہ حقیر جاننا اور اس پر بیان بازیاںپہلی مرتبہ نہیں ہیں بلکہ گزشتہ سالوں میں یہ ذہنیت بہت کھل کر سامنے آئی ہے۔نتیجہ میں کبھی دلتوں کو کتے سے تعبیرکیا گیا تو کبھی ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو کتے کے پلّوں سے موازنہ کیا گیا۔

گفتگو کے پس منظر میں سوال اٹھتا ہے کہ امبیڈ کر وادی مظلوم طبقہ کے پاس مظلومیت سے نکلنے کا واحد حل کیا صرف حصول اقتدار ہے؟اوراگر وہ کسی بھی سطح پر اقتدار حاصل بھی کر لیں تو کون سا نظریہ اورideologyنافذکریں گے؟دوسری جانب معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک اس پہلو سے چیلنج کو قبول کیا ہی نہیں ہے۔اور چونکہ سارازور مظلومیت سے تعلق رکھتا ہے لہذا مظلومیت کے شکار فکری اعتبار سے انتقامی جذبہ رکھتے ہیں اور وہ کوئی متبادل نظام یا نظریہ تجویز نہیں کرتے۔البتہ وہ چاہتے ہیں کہ اب تک جو طبقات محروم رہے ہیں،انہیں اقتدار حاصل ہونا چاہیے۔اور جب انہیں اقتدار حاصل ہو جائے گا تو ظالم سے ظلم کا بدلہ لینا آسان ہوگا۔ظلم و ستم سے چور ان طبقات میں اقتدار کا نشہ ہی ہے کہ وہ انہیں مقصد سے وقتاً فوقتاً بھٹکاتا بھی رہتا ہے۔

جس کے نتیجہ میں بے شمار دلت رہنما اُسی ہندوتو وادی فکر کے حاملین کا لقمہ اجل بن جاتے ہیںجن سے نجات کے لیے وہ کبھی کھڑے ہوئے تھے۔ہندوستانی سیاست میںیہ نظارہ بارہا دیکھنے میں آیا ہے کہ اقتدار پر مبنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی جسے عرف عام میں بی جے پی کہا جاتا ہے ،وقتی حصول اقتدار کے نشہ میں ،وہ اپنی منزل مقصود کو بھول کر قلیل مدت کامیابی وعزت و منزلت کے لیے وہ اسی کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں،جس کے خلاف وہ کبھی کھڑے ہوئے تھے۔

سوال مسلمانوں سے بھی ہونا چاہیے،وہی سوال جو امبیڈ کر وادیوں سے تعلق رکھتا ہے۔کہ آیا آپ کی سعی و جہد جو کچھ بھی آپ انجام دے رہے ہیں اس کا حاصل اور منزل مقصود کیا ہے؟اگر آپ اور وہ دونوں ہی کنفیوژن کا شکار ہوں تو پھر ان میں اور آپ میں فرق کیا رہ جاتا ہے؟ظلم کا شکار آپ بھی ہیں،بے مقصدیت سے آپ بھی نبرد آزما ہیں،حصول اقتدار کے لیے آپ بھی کوشاںہیں۔اس کے باوجودکہیں آپ بھی فکر و نظر سے محروم تو نہیں۔

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com