اسلام آباد: پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر 5 مئی کو قائم ہونے والی6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم حکومتی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مقررہ وقت میں رپورٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
جے آئی ٹی نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں دفتر ملنے پر 8مئی کو باضابطہ طور پر اپنے کام کا آغاز کیا اور 63 دن بعد 10جولائی کو 256 صفحات پر مشتمل اپنی حتمی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کردی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے واجد ضیا کی سربراہی میں بننے والی یہ اپنی نوعیت کی واحد ٹیم تھی جس نے دھمکیوں کے باوجود حکمراں جماعت کے خلاف تحقیقات خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد اپنی چوتھی حتمی رپورٹ پیش کی۔ اس دوران آنے والی عید الفطر پر صرف ایک چھٹی کی۔ اس سے قبل 3 پیش رفت رپورٹس بالترتیب 21مئی، 7جون اور 21جون کو عدالت عظمیٰ میں پیش کیں۔ جے آئی ٹی کو دیے گئے 60روز میں ٹیم کے2ارکان عرفان نعیم منگی اور ایم آئی کے ممبر بریگیڈیئر کامران خورشید دبئی بھی گئے۔ سپریم کورٹ کے 13سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے قطری شہزادے سے بھی رابطہ کیا جبکہ برطانیہ سے بھی ریکارڈ حاصل کیا گیا۔
میڈیا میں بھی جے آئی ٹی سے متعلق قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں تاہم6 رکنی ٹیم نے ادھر ادھر کے معاملات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تندہی سے اپنا کام جاری رکھا اور ایک مفصل رپورٹ تیار کی۔ جے آئی ٹی کے تمام 6ارکان عدالت میں پیش ہوتے رہے۔ حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لیے تمام ارکان کمرہ عدالت میں فاضل ججزکی نشتوں کے سامنے والی میز تک گئے اور ڈبوں سے نکال کر رپورٹ فاضل ججزکے سامنے رکھی اور سماعت ختم ہونے پر ججز کے عدالت سے نکلنے والے راستے سے باہر روانہ ہوگئے۔ واجد ضیا کی سربراہی میں جے آئی ٹی کے دیگر ارکان میں اسٹیٹ بینک سے عامر عزیز، ایس ای سی پی کے نمائندے بلال رسول، نیب سے عرفان نعیم منگی، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر محمد نعمان سعید جبکہ ایم آئی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے۔ واضح رہے کہ تحقیقات کے دوران وزیراعظم نوازشریف، ان کے تینوں بچے، داماد کیپٹن رٹائرڈ محمد صفدر، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور وزیرخزانہ اسحاق ڈارکے علاوہ ایس ای سی پی، نیب، ایف بی آر اور نیشنل بینک کے سربراہان بھی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔