انبیا ء اکرام کی سرزمین مملکت شام اس وقت عالمی قوتوں کی طاقت کا جنگی اکھاڑہ بن چکا ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے شامی افواج کے مقامات پر حملے شروع کردیئے ہیں۔ برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسامے کا کہنا تھا کہ ”شام پر حملے کے علاوہ کوئی متبادل راستہ نہیں تھا ۔” برطانیہ کے نزدیک شام پر حملہ جائز و قانونی تھا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکراں نے شام کے خلاف امریکا و برطانیہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور شام میں فرانسیسی طیں نے بھی حملہ کیا ۔فرانس کے نزدیک حملے کا مقصد شام کے کیمیائی ہتھیاروں کوکی پیداوار کو نشانہ بنانا تھا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولن برگ نے بھی شام پر حملے کی حمایت کا اعلان کیا ۔ کینیڈا ، ترکی اور اسرائیل نے بھی صدر بشار الاسد کے خلاف حملے کا خیر مقدم کیا ہے۔ روس ، ایران نے حملوں کی شدید مذمت کی اور اس کا ردعمل علاقائی سطح پر سنگین نتائج بتائے ہیں۔
امریکا اور روس کے درمیان بدترین تعلقات میں مسلسل کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ روس، بشار الاسد کا اور امریکا ،بشار الاسد مخالف قوتوں کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں ۔ سات برس سے جاری جنگ میں اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ صرف شام کے نہتے و بے بس عوام ہیں ۔ خانہ جنگی سے سرزمین شام کھنڈرات کا ڈھیر بن چکی ہے ۔ سوا 2کروڑ آبادی رکھنے والے اس ملک میں زندگی اپنی جان کی بازی ہار چکی ہے۔ انسانی زندگی کا دارو مدار صرف اور صرف عالمی قوتوں کی جانب سے بمباری روکنے پر ہی موقوف ہوچکا ہے۔لاکھوں شہریوں کی ہجرت ، نقل مکانی اور بربادی کو تمام دنیا خاموشی سے دیکھتی رہی ہے ۔ شامی مسلمانوںپر ہونے والے مظالم پر استعماری قوتیں اپنی طاقت آزمائی کررہی ہیں۔2011میں لاکھوں مظاہرین کی جانب سے بشار الاسد کے خلاف احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہوا ، جسے بزور طاقت کچلنے کا اعلان کرتے ہوئے بشار نواز قوتوں نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔2011ء میں تیونس میں محمدبو عزیزی کی خود سوزی کے گرد بننے والی تحریک نے جلد ہی پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا۔ اس تحریک نے بڑھتے ہوئے برسوں سے رائج آمریتوں کا خاتمہ کیا، وہیں پر اس عرب انقلاب نے پوری دنیا پر اہم انقلابی نقوش چھوڑے۔ شام میں بھی عرب بہار نے برسوں سے سطح کے نیچے موجودمروجہ نظام کے خلاف نفرت کو لاوے کی طرح سامنے لانے کا کام کیا۔ فروری 2011ء میں السذاجتہ أبازیدنامی نوجوان نے اپنے سکول کی دیوار پر، ‘ڈاکٹر بشار الاسد اب تمہاری باری ہے’ لکھا۔ اس جرم کی پاداش میں أبا زید کو حکومتی اہلکاروں نے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جس کے خلاف مارچ 2011ء میں شام کے جنوبی شہر ڈیرہ میں جمہوریت کے حامیوں نے احتجاج کیا۔
اس پر حکومت نے سختی سے نپٹتے ہوئے احتجاج کو پرتشدد طریقے سے منتشر کر دیا۔ اس ریاستی جبر نے عوامی لاوے کو پھاڑ کر ایک انقلاب کا آغاز کیا۔ بظاہر احتجاجوں کے مطالبات زیادہ تر سیاسی نوعیت کے تھے لیکن جوں جوں تحریک آگے بڑھتی گئی تو معاشی و سماجی مطالبات کے ساتھ پورے نظامِ کو چیلنج کرنے لگ گئی۔بتدریج مملکت شام کے مختلف حصوں میں جنگجو ملیشیائوں نے مسلح مزاحمت شروع کردی اور عالمی استعماری قوتوں نے شام کے مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے وہاں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کو ترجیح دی ۔ شام میں جاری جنگ کی وجہ سے ترکی میں 25لاکھ سے زائد شامی باشندے پناہ لے چکے ہیں ۔ 827طویل سرحد کی وجہ سے ترکی براہ راست متاثر ہونا شروع ہوا۔عالمی طے شدہ ایجنڈے کے تحت شام کے شہر عفرین کے کردوں کو ترکی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ امریکا نے ترکی کے خلاف کرد باغیوں کی حمایت شروع کردی جس کی وجہ سے ترکی نے ” زیتون کی شاخ” نامی آپریشن کرکے عفرین میں اپنی فوجیں داخل کردیں ۔ امریکا کردوں کی 30ہزار فوج بنانے کا اعلان کرچکا تھا ۔ اس سے قبل ترکی میں امریکی حمایت یافتہ ترکی لیڈر نے بغاوت کردی تھی جسے طیب اردوغان نے عوام کے ساتھ ملکر ناکام بنا دیا تھا۔امریکا ، اسرائیل کی طرز پر ترکی ، عراق ، شام اور ایران کے ترک علاقوں پر مشتمل ایک نئی اور آزاد مملکت کا قیام چاہتا ہے۔ تاکہ اسرائیل مخالف قوتوں کے خلاف کرد حکومت کو استعمال کیا جاسکے ۔ شام کی جنگ میں اب تک ساڑھے 4 لاکھ شامی باشندے ہلاک ہوچکے ہیں ، جبکہ10 لاکھ سے زائد زخمی اور 12ملین سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوچکی ہے۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 70فیصد آبادی پینے کے پانی کی سہولت سے محروم ہیں ، ہر تین میں سے ایک فرد بنیادری خوراک کی عدم دستیابی و کمی کا شکار ہے ہر چوتھا شامی غربت کی اتھا گہرائی میں عبرت کی تصویر بنا ہوا ہے ۔ علان معالجے کے سہولیات میسر نہ آنے کی وجہ سے قابل علاج امراض بھی ناقابل علاج بن چکے ہیں اور انسانیت جنگی بربریت کا نشانہ بن رہی ہے۔
امریکا اور روس نے شام کی سرزمین پر بڑی جنگ لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے پہلا بڑا فضائی حملہ کرچکاہے ۔ اس کی وجہ روس اور شامی اتحاد جنگجوئوں کی جانب سے بشار مخالف گروپ پر ایک مرتبہ پھر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جانا بتایاگیا ہے۔ جس کی زد میں عام شہری اور بچوں کی بڑی تعداد بھی آئی ہے ۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں ہلاکتوں کے حوالے معروضات کے علاوہ شام میں بمباریوں سے انسانی ہلاکتوں کا ذکر نظر اندازنہیں کیا جاسکتا کیونکہ جس طریقے سے نہتے ، بے گناہ انسانوں پر بمباریاں کیں گئیں اس کی مذمت کے لئے تو اقوام متحدہ کے پاس بھی الفاظ ختم ہوچکے تھے ۔ اس کا اندازہ بین الاقوامی چلڈرن ایمرجنسی فنڈ (یونیسیف) کے شام کے مشرقی علاقے غوطہ میں بمباری کے نتیجے میں بچوں کے جاں بحق ہونے پر بہ طور احتجاج خالی اعلامیہ سے کیا جاسکتا ہے جس کے آغاز پر مضمون کی جگہ پر یہ سطر تحریر کی گئی ہے کہ ‘کوئی الفاظ ان جاں بحق بچوں، ان کے ماں باپ اور پیاروں کو انصاف نہیں دلا سکتے’۔ اس کے بعد پورا صفحہ خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ خالی اعلامیہ یونیسیف کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے اور نشریاتی اداروں کو جاری کرتے ہوئے اعلامیہ کے ساتھ ایک یادداشت بھی منسلک کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ شام میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں پر خالی اعلامیہ جاری کیا جا رہا ہے کیوں کہ کسی لغت میں وہ الفاظ موجود نہیں جو ایسے سانحات اور مظالم کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ گیرٹ کیپیلیرے نے بین الااقوامی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کے دوران سب سے زیادہ نقصان بچوں کی ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آتا ہے کیوں اس طرح ہمارا مستقبل منوں مٹی تلے دب جاتا ہے، ہمیں ایسے الفاظ نہیں مل رہے ہیں جو ان کرب ناک سانحات کا احاطہ کرسکتے ہوں۔
ماہرین کے مطابق اس تنازعے کا کوئی بھی فریق فوجی اعتبار سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسد غالباً اس بات کا مکمل تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ مغربی دنیا کی طرف سے تمام تر دھمکیوں کے باوجود وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ باغیوں کو بھی یقین ہے کہ یہ تنازعہ پُر امن طریقے سے حل نہیں ہونے والا۔ اثر و رسوخ کے لیے ہونے والی کشمکش میں نہ تو عالمی طاقتیں اور نہ ہی علاقائی طاقتیں اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔ جبکہ روس نے حملے کی تحقیقات کے لئے سلامتی کونسل کی قرار داد کو بھی روس نے ویٹو کردیا ہے۔قرار داد کے حق میں 12ممالک نے ووٹ دیا تھا ۔ قرار داد فرانس کی جانب سے پیش کی گئی تھی ۔ جس پر برطانیہ ، امریکا ، کویت ، سویڈن ، پولینڈ ، پیرو ، نیدر لینڈز اور آئیوری کوسٹ نے بھی دستخط کئے تھے۔ بولیویا نے روس کا ساتھ دیا جبکہ چین نے اپنا ووٹ استعمال نہیں کیا۔ قرار داد ویٹو کرنے کے بعد ایک اور قرارداد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی جسے روس کی حمایت حاصل تھی لیکن 7ممالک کی مخالفت کے سبب قرارداد مسترد ہوگئی ۔ قرارداد کی منظوری کے لئے کم ازکم 9ووٹ درکار ہوتے ہیں ۔ نئی قرار داد کے حق میں چین نے بھی اپنا ووٹ استعمال کیا تھا ۔ روس اب تک شام کے خلاف سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی12قراردادوں کا ویٹو کرچکا ہے۔جس کی وجہ سے شام کے خلاف عسکری کاروائی ممکن نہیں ہوپاتی۔برطانیہ اور مغربی بلاک کی جانب سے ڈبل ایجنٹ سرگئی کے خلاف اعصاب شکن زہریلی گیس کے استعمال سے سرد جنگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جب برطانیہ سمیت امریکا و اتحادیوں نے روس کے سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا تھا۔
جوابی طور پر روس نے بھی امریکی سفارت کاروں کو اپنے ملک سے بیدخل کرنے کے احکامات دے دیئے تھے ۔ یہ سرد جنگ مزید کشیدہ ہوتی چلی گئی اور روس کے تجارتی اتحادی چین کے خلاف امریکا نے تجارتی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے بھاری ٹیکس لگا دیئے جس پر چین نے بھی امریکی درآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کردیئے ۔ امریکا چین کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کو سہ نہیں سکا اور امریکی صدر ٹرمپ نے تسلیم کرلیا کہ وہ چین کے مقابلے میں تجارتی جنگ ہار چکے ہیں۔ اب امریکا نے دوما میں زہریلی گیس حملے کو جواز بناتے ہوئے شام پر حملے کو یقینی بنا دیا ہے۔ فرانس اور برطانیہ بھی شام پر حملے کی حمایت میں ہیں اور عالمی منظر نامے میں واضح نظر آرہا ہے کہ عراق ، افغانستان کے بعد اب امریکا شام کی سرزمین پر قبضے کے لئے پَر تول رہا ہے ۔ امریکی حملے سے قبل یورپی ادارے ” یورو کنٹرول” نے فضائی کمپنیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ مشرقی بحیرہ روم سے گذرنے والی اپنی پروازوں کے حوالے سے احتیاط کریں کیونکہ اگلے 72گھنٹوں میں شام پر فضائی حملہ کیا جاسکتا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ لاطینی امریکی خطے کا پہلے سے طے شدہ اپنا دورہ بھی منسوخ کردیا تھا۔امر یکا عرب ممالک سے مطالبہ کرچکا تھا کہ اس جنگ میں اٹھنے والے اخراجات برداشت کریں ۔ کیونکہ اس جنگ سے امریکا کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد کے حالیہ امریکی دورے و ملاقات کے دوران بھی شامی جنگ کے اخراجات کا معاملہ اٹھایا گیا تھا جس میں چار ارب ڈالر سعودی عرب سے طلب کئے گئے تھے۔
اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے میں امریکی اتحادیوں کو سات برسوں میں کامیابی نہیں مل سکی ہے اس لئے اب اس بات کی زیادہ کوشش کی جائے گی کہ کسی طرح بشار الاسد کو جانی نقصان پہنچایا جاسکے ۔ امریکی حملوں میں نئے اسمارٹ میزائل کے ا ستعمال کئے جانے کا امکان ظاہر کیا جا چکا ہے ۔گو کہ امریکی تمام میزائل GBSٹیکنالوجی سے لیس ہیں جو کسی بھی ہدف کو درست نشانہ لگا سکتے ہیں ۔ لیکن روس کے پاس بھی جدید ترین دفاعی نظام موجود ہے جو امریکی حملے کو روکنے کے علاوہ جوابی حملے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ امریکا ، برطانیہ اور فرانس کے فضائی حملوں کے جواب میں ایس ۔400 دفاعی نظام استعمال نہ کئے جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں ، اطلاعات کے مطابق سوویت یونین کا 30 برس پرانا دفاعی ائیر بیس نظام استعمال کیا گیا تھا ۔ گو کہ روس نے حال ہی میں اپنے نئے دفاعی نظام میں ایسے میزائل متعارف کرائے تھے جو امریکا سمیت پوری دنیا میں کسی بھی ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لبنان میں تعینات روسی سفیر نے امریکی دہمکی پر واضح بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان میزائلوں کو تباہ کردیا جائے گا اور ان جگہوں پر بھی حملہ کیا جائے گا جہاں سے یہ میزائل داغے جائیں گے۔ دونوں عالمی قوتوں کے درمیان طاقت کے نئے مظاہرے اور جنگ سے خطے کی صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی اور اس کے براہ راست اثرات عرب مسلم ممالک پر پڑیں گے ۔ اسرائیل بھی اس جنگ میں ایران کے خلاف براہ راست حصہ لینے کے لئے تیار ہے۔ گزشتہ دنوں شامی ائیر بیس پر اسرائیلی طیاروں نے بھی بمباری کی تھی جس میں ایرانی فوجیوں کی ہلاکت بھی سامنے آئی تھی۔
شام کی جنگ کے حوالے سے تین اہداف سامنے آچکے ہیں ۔ جس میں سب سے پہلے بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے ،جس میں سات برس گذر جانے کے باوجود اقوام متحدہ کو بھی کامیابی نہیں مل سکی ہے جب سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر بشار الاسد کو مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا ۔ اسی طرح شام کی جنگ کا دوسرا ہدف ، مملکت کی تقسیم ہے ۔ جس میں بھی ابھی تک کامیابی نہیں ہوسکی ہے۔ اسرائیل و امریکا کی یہ خواہش ہے کہ شام تقسیم ہوجائے ، اس سلسلے میں امریکا شامی کردوں کی حمایت کرتے ہوئے 30ہزار کرد ملیشیا بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ جس کی ترکی نے شدید مذمت کی تھی ۔ عفرین پر ترک کاحملہ اسی سلسلے کی کڑی تھی جس میں کرد ریاست بننے کو روکا جاسکے۔ تاکہ شام ، عراق اور ایران کے علاقوں میں پھیلے ہوئے کردوں کو آزاد ریاست میں اسرائیل طرز پر بنایا جاسکے۔شام کی جنگ کا ایک اہم ہدف ایران اور ایران نواز تنظیم حزب اللہ کو کمزور کرنا رہا ہے ۔ لیکن شامی جنگ میں جس طرح ایران اور حزب اللہ نے خود کو مضبوط کیا وہ اسرائیل کے لئے پریشان کن ثابت ہو رہا ہے۔ گو کہ اس حوالے سے ایران کا کردار کافی متنازعہ رہا ہے جس میں اجرت پر پرائیوٹ ملیشیا بنا کر شام میں بشار الاسدحکومت کی مدد کی گئی ۔ لیکن اسرائیل اور امریکا حزب اللہ کو کمزور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے اور اسرائیل حزب اللہ کو اپنے وجود کے لئے سب سے بڑا سمجھتا ہے۔اس تمام مظہر میںاقوام عالم اس بات کو فراموش کررہی ہے کہ داعش کے خلاف جنگ میں شکست خوردہ اسلامک اسٹیٹ کو دوبارہ سنبھلنے کا موقع مل رہا ہے ۔ عراق و شام میں داعش کو شکست کے بعد دوبارہ سنبھلنے کے لئے مہلت درکار تھی جو اب انہیں شام میں عالمی قوتوں کے درمیان جنگ و جھڑپوں کی صورت میں میسرآرہا ہے۔ داعش کے شکست خوردہ عناصر افغانستان میں جمع ہو رہے ہیں اور افغانستان میں منظم ہو رہے ہیں ۔ خیال یہی کیا جارہا ہے کہ عالمی قوتوں کے درمیان محاذ آرائی کا براہ راست فائدہ داعش کو بھی پہنچے گا اور عالمی دہشت گرد تنظیم ایک مرتبہ پھر اس قابل ہوجائے گی جس میں اپنے سابق مفتوحہ شہروں پر پیش قدمی کرسکتی ہے۔ اس کے لئے فی الوقت افغانستان کومرکزی ہیڈ کوارٹر کی حیثیت دے دی گئی جہاں مفرور شکست خوردہ داعشی جمع ہو رہے ہیں اور ان کی تعداد ہزاروں میں بڑھ چکی ہے ۔ افغانستان میں کمزور حکومتی رٹ کے بدولت داعش کا فتنہ بہت جلد زور پکڑ سکتا ہے اور اس کی ذمے دار عالمی قوتیں ہونگی۔
امریکا سمیت کسی بھی مغربی بلاک کو مسلم اکثریتی ممالک سے کوئی انسانی ہمدردی نہیں ہے ۔ بلکہ عرب ممالک کے قدرتی خزانوں پر اُن کی ہمیشہ نظر رہی ہے ۔ بد قسمتی سے عرب ممالک کے درمیان اختلافات کا فائدہ مکمل طور پر یہود، ہنود و نصاریٰ اٹھا رہے ہیں۔ قدرتی وسائل و خزانوں کا منہ مسلم دشمن قوتوں کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ جو مسلم ممالک کے درمیان نا اتفاقی دور کرنے کے بجائے انتشار اور افراتفری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔عرب و عجم کے درمیان سینکڑوں برس کی خلیج ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے اور ریاستوں کی فروعی پالیسیوں کی وجہ سے عام نہتے انسان ہی جنگ کے ایندھن کا حصہ بن رہے ہیں۔مسلم اکثریتی ممالک کے اجتماعی عالمی تنظیم باہمی اختلافات کو دور کرنے میں بھی ناکام نظر آتی ہے ۔ دوسری جانب مسلم اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی مسلم اکثریتی ممالک کا اتحادغیر فعال نظر آتا ہے ۔ مسلم ممالک اندرونی انتشار اور عالمی پراکسی جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔ بد قسمتی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی ماضی میں ہونے والی جنگوں سے مسلم اکثریتی ممالک سبق کیوں نہیں حاصل کرتے۔عوامی رائے یہی سامنے آئی ہے کہ مسلم حکمرانوں کی نا اتفاقی کی وجہ سے امت مسلمہ پر کڑا وقت آیا ہوا ہے ۔ غیر مسلم قوتیں مسلم امہ کو مزید برباد کررہی ہیں ، رہی سہی کسر ہم مسلمانوں کا آپس میں بدست و گریباں ہونا ہے ۔ داخلی انتشاروں اور افرا تفری کی وجہ سے اقوام عالم میں کوئی ایسا ملک نظر نہیں آتا جو مسلم ممالک کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہو ۔ تقریباََ تمام مسلم ممالک داخلی و خارجی مسائل کا شکار ہیں۔ عالمی استعماری قوتوں نے مسلم ممالک کو مفلوج اور غیر فعال بنا رکھا ہے ۔ مسلم امہ کی طاقت کا سرچشمہ ایک مضبوط رسی ہوا کرتی تھی لیکن اب مسلمان اب چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ کر رہ گئے ہیں۔استعماری قوتوں کا دجالی تکون مسلم ممالک کو ہر طرف جکڑ چکا ہے ۔ اس شکنجے سے خود کو آزاد کرنے والی مملکتوں پر ایسی سازشوں کا انبار لاد دیا جاتا ہے کہ وہ اجتماعی مقاصد سے دور ہوجاتی ہیں اور محدود پیمانے پراپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہوجاتی ہیں ۔ ہمیں امت واحدہ کے تصور کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ جب تک ہم امت واحدہ کے درست تصور کے ساتھ عالمگیر سطح پر ابھر کر اپنی ملت کی قیادت نہیں کرتے اُس وقت تک ہمارے مسائل کا حل ہنود ، یہود و نصاریٰ اور ان کے حلیفوں کے پاس نہیں نکل سکتا۔