counter easy hit

وہ تین باتیں جو پہاڑی علاقوں سے سیکھنی چاہئیں

شہر کی پررونق زندگی میں بنیادی انفرا سٹرکچر اور دیگر شعبوں میں جدت آنے کی وجہ سے انسان کے لیے بیش بہا آسانیاں ہیں۔ بہترین سڑکیں، صحت و تعلیم کی سہولیات اور روزی روٹی کے مناسب ذرائع بظاہر تو سکون کی علامات ہیں لیکن ان کے حصول نے انسان کو بے چینی اور مایوسی جیسی بیشتر ذہنی پریشانیوں میں مبتلا کردیا ہے۔

ایسا نہیں کہ انسان ان چیزوں سے انجان ہے۔ وہ جانتا ہے… بس اپنے رہن سہن کی وجہ سے مجبور ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ پُرسکون مقامات کی سیر کا پلان بناتا ہے تاکہ طبیعت ہشاش بشاش ہوجائے۔

میں اکثر اوقات محسوس کرتا ہوں کہ شہری علاقوں کی یہ ترقی ہمیں اخلاقی طور پر تنزلی کی طرف لیے جارہی ہے۔ انسان دنیا میں پُرآسائش اور پرسکون زندگی جینے کےلیے نہیں بھیجا گیا بلکہ مشکلات اور مصیبتوں کو جھیل کر ایک کامیاب زندگی جینے کےلیے بھیجا گیا ہے؛ اور کامیابی قطعی طور پر پیسے کی نہیں بلکہ آخرت میں سرخرو ہونے کی ہے جس کا حصول پہلے ہی نہایت دشوار ہے اور اب ان آسائشوں کی خواہشات کی وجہ سے انسان نے اس کا حصول اپنے لیے مزید مشکل بنالیا ہے۔

پہاڑی مقامات کی سیر درحقیت روز مرہ کی مصروف زندگی سے قطع تعلقی اور قدرت کے نظاروں سے اپنی آنکھیں، دماغ، دل یہاں تک کہ روح کو تروتازہ کرنے کی کوشش ہے۔

چند ماہ پہلے پاکستان کے ایک خوبصورت خطے آزاد کشمیر کی سیر کی توفیق ملی۔ مظفر آباد، کیرن، شاہدرہ، کیل اور ارنگ کیل کے خوبصورت اور دل موہ لینے والے مقامات سے گزرتے ہوئے احساس ہوا کہ جو جسمانی اور ذہنی سکون قدرتی مناظر کو دیکھ کر ملتا ہے، شہر کی چمچماتی رنگین زندگی سے نہیں مل سکتا۔

اس سارے سفر میں جہاں خوبصورت مناظر سے بے پناہ لطف اندوز ہوا، وہیں چند سبق آموز باتیں بھی میرے مشاہدے میں آئیں جو قارئین کےلیے پیشِ خدمت ہیں:

1۔ منفی اور مثبت خیالات انسان کے اختیار میں ہیں

یہ بات کہ منفی اور مثبت خیالات انسان کے اختیار میں ہیں، کہنے کو بہت آسان ہے مگر کرنے میں بہت مشکل ہے!

خطرناک راستے پر ایک طرف بلند و بالا پتھریلے پہاڑ اور دوسری طرف گہری کھائی؛ اوپر نیلا صاف آسمان، سامنے پہاڑوں پر خوبصورت ہریالی…

گہری کھائی اور تیز بہتے دریا کو دیکھتا تو دل خوف کے مارے تیز تیز دھڑکنے لگ جاتا اور پہاڑوں پر موجود ہریالی کو دیکھتا تو سارا خوف سکون میں بدل جاتا۔

قارئین کرام، درحقیقت یہی فرق ہے مثبت اور منفی سوچ میں!

اختیار انسان کے بس میں ہے۔ یا تو وہ خدا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو یا پھر گہری کھائی اور بہتے دریا کی تیز موجوں کو دیکھ کر یہ سوچے کہ کہیں گاڑی کا ٹائر پھسل گیا تو کیا ہوگا؟ یا پھر اس بات سے خوفزدہ ہو کہ ان پتھریلے پہاڑوں سے کہیں لینڈ سلائیڈنگ نہ شروع ہوجائے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایسے راستوں سے گزرنا واقعی دشوار ہے؛ اور کسی بھی قسم کے حادثے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

دیکھا جائے یہی تو زندگی ہے کہ ایک طرف مفلسی کا ڈر اور دوسری طرف خدا کی رحمت۔ چوائس انسان کے پاس ہے کہ وہ کسے چنتا ہے۔

2۔ زندگی دشوار راستوں کی مانند ہے

انسان جب کسی بڑی آزمائش سے سرخرو ہوتا ہے تو سوچتا ہے کہ زندگی اب سکون میں آجائے گی… لیکن کچھ ہی پل گزرتے ہیں کہ ایک اور آزمائش آن کھڑی ہوتی ہے۔

دشوار گزار راستوں سے گزر کر اندازہ ہوا کہ زندگی شہروں کی صاف ستھری سڑک اور تیز رفتار ٹریفک کا نام نہیں کہ جہاں انسان بہ آسانی دیکھ سکتا ہے کہ 500 میٹر یا ایک کلومیٹر تک راستہ کیسا ہے۔

زندگی تو درحقیقت ان دشوار راستوں کی مانند ہے کہ ایک خطرناک موڑ کے بعد اس سے بھی خظرناک موڑ آپ کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔ یعنی کہ جب تک منزل مقصود تک نہیں پہنچ جاتے، امتحانات اور آزمائشیں آئیں گی۔

راستے میں رک جانا یا چند لمحے سستانا تھکاوٹ دور کرنے کےلیے تو ٹھیک ہے لیکن منزل تک پہنچنے کےلیے رکاوٹوں کو پار کرنا شرط ہے۔ جو پار کر گیا وہ کامیاب، جو ڈر کر رک گیا وہ ناکام۔

3۔ زندگی میں تسلسل لازمی ہے

دورانِ سفر ڈرائیور سے پوچھا کہ ان راستوں پر ایکسیڈنٹ تو بہت ہوتے ہوں گے؟

اس نے کہا کہ ہوتے تو بہت ہیں لیکن شہر کی نسبت بہت کم۔

وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہاں گاڑی آرام سے چلاتے ہیں۔ شہروں کی طرح تیز نہیں… اور دوسرا یہاں ڈرائیور جلد بازی نہیں کرتے۔

اگر کوئی گاڑی سامنے سے آجائے تو اسے باقاعدہ راستہ دیتے ہیں نہ کہ خود گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر آپ شہری علاقوں میں ایکسیڈنٹ کا جائزہ لیں تو 90 فیصد ٹریفک حادثات کی وجہ تیز رفتاری اور جلد بازی ہوتی ہے۔ اسپیڈ لمٹ کا خیال نہ رکھنا، بلاوجہ اوور ٹیک کرنا اور کسی کو راستہ نہ دینا نقصان کا مؤجب بنتا ہے۔

قارئین کرام! اسی طرح زندگی میں جو شخص بہت جلد کامیابی سمیٹنا چاہتا ہے، حلال و حرام میں تمیز کو نظر انداز کرتا ہے، اپنے آپ کو افضل اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے، وہ بلاشبہ اپنا تو نقصان کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے ساتھیوں کا بھی۔

اس لیے دشوار راستوں کی طرح زندگی کی گاڑی کو دھیرے دھیرے مناسب رفتار سے بڑھنے دیجیے، کامیابی آپ کے قدم ضرور چومے گی۔ اور یاد رکھیے کہ اللہ کو بھی وہ کام پسند ہے جو بے شک تھوڑا ہو لیکن تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔