counter easy hit

تخت اوردھڑن تختہ

Corruption

Corruption

تحریر:ایم سرورصدیقی۔ لاہور
کوئی ہم سے پوچھے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے۔۔ ہم سوچے سمجھے بغیر فوراً سے پہلے جواب دیں گے کرپشن۔۔ اسی کرپشن نے پاکستان کے قومی اداروں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے۔ پڑوسی ملک بھارت کے ایک سماجی نیتا انا ہزارے نے کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو کرپٹ عناصر میں تھرتھلی مچ گئی بھارتی سماج میں ایک خوف طاری ہوگیا اورانا ہزارے کی تحریک کے نتیجہ میںکرپشن کے خلاف ایک مؤ ثر پلیٹ فارم مہیا ہوگیا لیکن پاکستان کے کرپٹ افراد بہت طاقتورہیں اس میں حکمران، بیوروکریسی، سیاستدان،فیوڈل لارڈ،سرمایہ دار اور بڑی بڑی شخصیات شامل ہیں انہوں نے باقاعدہ مافیا کی شکل اختیارکرلی ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے سرکاری ادارے تباہ ہوگئے پاکستان ”مال ِ مفت دل ِ رحم ”کی اس سے بڑی مثال پیش کرنے سے قاصرہے۔۔۔ایک شخص نے کسی دانشور سے دریافت کیا حضرت !کرپشن کی(Definition) تعریف کیا ہے؟ اس نے بلا تامل جواب دیا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن ہے۔

اگر اس فارمولے پر عمل کیا جائے تو ہماری پوری کی پوری بیوروکریسی اور سارے کے سارے سیاستدان کرپٹ ہو جاتے ہیں یہ تو بڑی بات قلم سے لکھ دی گئیہے ۔۔۔ اور تو اور پاکستان میںتو ایک معمولی اہلکار اپنے دفتر کے افسر ِ اعلیٰ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتاہے بعینہ’ ایک کانسٹیبل کا بس چلے تو وہ SHOکے اختیارات انجوائے کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا خیر پاکستان میں یہ معمولی باتیں ہیں ہمارے پڑوسی اور دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کہلوانے والے ملک میں کچھ ماہ قبل تیزی سے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے والی ”عام آدمی پارٹی ” نے دہلی میں سرکار بنائی تھی چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ دہلی کے وزیر ِ اعلیٰ اروندک یجریوال کرپشن کے خلاف کے میدان میں آئے انکے اقدامات کو عوام نے بے حد سراہا لیکن اس کے باوجود ان کی کرپٹ عناصر کے آگے ایک نہ چلی جب انہوںنے کرپشن کے خلاف اسمبلی میں قانون سازی کرنا چاہی مگر ناکام رہے تو وہ احتجاجاً کابینہ سمیت مستعفی ہوگئے۔۔۔اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتاہے کہ روندک یجریوال نے کرپٹ عناصرکے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔۔۔ ان کا استعفیٰ ایک اچھی روایت ہے بلکہ اسے روایت ساز بھی کہا جا سکتاہے ۔۔پاکستان میں تو سرے سے ایسی کوئی روایت ہی نہیں یہاں تو ایک سابق صدر ۔۔دو سابق وزراء اعظم سمیت 8000سے زائد سیاستدانوں، فوجی افسروں ، بیورو کریسی میں کرپشن۔۔۔ کرپشن کا کھیل کھیلنے والوں کے خلاف مقدمات موجود ہیں۔۔ کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کیلئے ”نیب ” جیسا ادار ہ موجود ہے۔۔انٹی کرپشن کا محکمہ بھی ہے ۔۔FIA میںبھی کرپشن کے کئی معاملات کی تفتیش ہوتی ہے ۔۔۔لیکن جس معاشرے میں رشوت کے الزام میں گرفتار ہونے والا رشوت دے کر چھوٹ جائے وہاں اصلاح ِ احوال کی تمام کوششیں دم توڑ جاتی ہیں یہ تو خود بھی شرمسارہو مجھ کو بھی شرمسار کر والا معاملہ ہے۔

لگتاہے کرپشن ہر ادارے کی رگ رگ میں سماگئی ہے اس لئے سائلین ذلیل و خوار ہوتے ہیں جونہی سائل نے باربار چکر لگانے سے تنگ آکر مجبوراً کسی اہلکارکی مٹھی گرم کی حالات ہی بدل جاتے ہیں جو کام کئی ماہ سے اٹکا ہوتاہے دنوںمیں ہو نے کی سبیل نکل آتی ہے ۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کرپشن کی علامت بن چکی ہے بڑے بڑے رہنمائوںنے سیاست کو صرف اپنی ترقی کیلئے مخصوص کررکھاہے یہی لوگ جرائم پیشہ افرادکی سرپرستی کررہے ہیں کراچی ، بلوچستان اور دیگر شہروں میں امن و امان کا مسئلہ بھی اسی لئے الجھاہوا ہے کہ مجرم ذہنیت لوگوںنے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنارکھا ہے جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں یہ عناصر اتنے طاقتور ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے ادارے ان کے علاقوں میں قدم بھی نہیں رکھ سکتے اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر قسم کی کرپشن کو حرام قرار دیا گیاہے اس کیلئے حرام اور حلال کا ایک وسیع تصور ا س کے مفہوم ومعانی کااحاطہ کرتاہے یہ الگ بات کہ اب پاکستانی معاشرے میں حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو تی جارہی ہے یہی مسائل کی اصل جڑ ہے دولت کی ہوس ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ، معاشرہ میں جھوٹی شان و شوکت اورراتوں رات امیربننے کی خواہش نے اکثریت کو بے چینی میں مبتلا کرکے رکھ دیاہے۔

انہی خواہشات نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر مجبور کررکھاہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو دہلی کے دوبارہ منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ اروندک یجریوال نے بھارت کے بے ایمان معاشرے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسیدکیا تھا جس سے ہر کرپٹ کا منہ سرخ ہوگیا اس نے اقتدار چھوڑ دیا لیکن کرپٹ عناصر سے کوئی سمجھوتہ یا مفاہمت نہیں کی جو پاکستان میں مفاہمتی سیاست کرنے والوںکیلئے ایک سبق ہے۔۔۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی ایسی ہی روایت کی طرح ڈالنی ہوگی ہمارے حکمران دن رات عوام کی خدمت کے دعوے کرتے رہتے ہیں میاں شہباز شریف اس خدمت کیلئے کچھ نہ کچھ کرتے نظرآتے ہیں ان کے اقدامات ا چھے بلکہ انقلابی بھی کہے جا سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو کسی طور ریلیف نہیں مل رہی۔۔جتنا پاکستانی معاشرہ بگڑ چکاہے۔۔ متعدد محکموں کی کارکردگی سے جتنے لوگ تنگ ہیں یا پھر جتنی بہتری لائی جا سکتی ہے ان کیلئے ایک مربوط حکمت عملی اور ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔

انڈیا میں تو کرپشن کے خلاف ایک سماجی رہنما انا ہزارے ایک علامت بن کر ابھراہے اس کے بعد روندک یجریوال نے اس کی سوچ کو مزید تقویت دی۔پاکستان میں ڈاکٹرطاہر القادری اور عمران خان کچھ عرصہ سے حکمرانوںکی کرپشن کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں بلکہ اپنے ہزاروںکارکنوںکے ہمراہ دھرنے بھی دے رہے ہیں اس میں یقینا سیاسی عوامل بھی کارفرماہیں ان کو مختلف محکموں ،اداروں اور شخصیات کے خلاف بھی میدان میں آنا چاہیے لیکن کرپشن کے بارے میں ان کی باتوںکو نظرانداز کرنا بھی صریحاً ناانصافی ہوگا۔حکومت کا بھی فرض بنتاہے کہ وہ ہر قسم کی کرپشن روکنے کیلئے قانون پر سختی سے عمل کروائے عوام کی حاکمیت کا خواب کرپشن کے خاتمہ کے بغیر ممکن نہیں بااثرلوگ یوٹیلٹی بلزنہیں دیتے، ٹیکس نہیں دیتے،بجلی اور گیس چوری میں ملوث ہیں لیکن کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا حکومت کا ان سے صرف ِ نظرکرنا بھی کرپشن کی ایک شکل ہے ہمارا مذہب اسلام تو ہر قسم کی کرپشن کے خلاف ہے ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی ،مذہبی رہنمائوں اور اداروںکو کرپشن کے خلاف میدان میں آنا چاہیے جرأت مندی سے اس فتنے کا مقابلہ کیا جا سکتاہے علماء کرام حلال و حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کیلئے بڑے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے۔

کعبہ کو کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
یہ بات بانگ ِ دہل کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کرپشن کی علامت بن چکی ہے بڑے بڑے رہنمائوںنے سیاست کو صرف اپنی ترقی کیلئے مخصوص کررکھاہے یہی لوگ جرائم پیشہ افرادکی سرپرستی کررہے ہیں اور جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچنے دیتے ۔۔عوام بیدارہورہے ہیں،آگہی کی کرنیں دل و دماغ میں نور بن کر اتررہی ہیں، شعوری اور لاشعوری طورپر عوام کی اکثریت کرپٹ عناصرکے خلاف ہے اللہ دلوںکو پھیررہاہے ایک نہ ایک دن ایسا ضرور آنے والا ہے جب دھڑن تختہ ہو جائے گا کرپٹ عناصرکو بھاگنے کا بھی موقعہ نہیں ملنے والادل کو اطمینان ہے ایسا ضرورہوگاآخر دنیا امیدپرقائم ہے۔

M Sarwar Siddique

M Sarwar Siddique

تحریر:ایم سرورصدیقی۔ لاہور