تحریر : علی عمران شاہین
صوبہ سندھ کا ضلع تھرپارکر گزشتہ کئی سال سے اپنی خشک سالی، اپنے باسیوں کے علاقے چھوڑنے اورمعصوم کلیوں کے مسکرانے سے پہلے قبر میں اترنے کے حوالے سے آج چار دانگ عالم میں شہرت رکھتا ہے۔یہاں کی زندگی پاکستان میں سخت ترین زندگی کہی جا سکتی ہے، جہاں پینے کو پانی اور کھانے کو خوراک ملنا آج کسی جان جوکھم سے کم نہیں۔یہاں جب بھی جانا ہوا ،زندگی کو مشکل ترہی پایا۔گھاس پھونس سے بنی جھوپڑیاں ہی تھرپارکر کے لاکھوں لوگوں کا مسکن ہیں۔ تھرپارکر کا شمار اگر دنیا کے چند بڑے صحرائوں میں ہوتا ہے تو اس کے نیچے کوئلے کا دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ذخیرہ بھی دفن ہے۔ یہ ذخیرہ 1991ء میں پاکستان کے سروے کے محکمہ نے دریافت کیا تھا۔ اس ذخیرے کی دریافت کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چوٹی کے 20 ممالک میں ہونے لگا ہے جن کے پاس کوئلے کے اتنے وسیع ذخائر ہیں۔ یہاں موجود کوئلے کے ذخائر کا اندازہ 9 ہزار مربع کلو میٹر لگایا گیا ہے جن میں اندازے کے مطابق 175 ارب ٹن کوئلہ موجود ہے جو ملک کی توانائی کی تمام تر ضرورت کو سینکڑوں سال تک پورا کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مباربک مند اس حوالے سے کہتے ہیں کہ تھر کے ذخائر کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے زمین کے اندر ہی گیس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس گیس کو مائع ایندھن میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ چند سال پہلے تک تھر کے کوئلے کو کان کنی کے ذریعے نکالا جانا ممکن نہیں تھا۔ یہ ذخائر 600 فٹ گہرائی میں ہیں۔ 150 فٹ گہرائی تک ریت ہے۔ پھر 150 فٹ تک پانی اس کے بعد 40 فٹ تک مٹی ہے پھر 150 فٹ پانی ہے اس کے بعد ذخائر شروع ہوتے ہیں۔ سمندر کا زیر زمین پانی بدین سے یہاں آ رہا ہے۔ اس پانی کی نکاسی ممکن نہیں۔ اگر پانی نکالنے کی کوشش کی گئی تو یہاں جھیل بن جائے گی اور پانی پھر بھی ختم نہیں ہو گا۔ 2005ء میں ایک نئی ٹیکنالوجی آئی ہے جس کے تحت کوئلہ کو اندر ہی جلا کر اس سے گیس پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے چین، امریکہ، آسٹریلیا، ازبکستان اور جنوبی افریقہ سمیت متعدد ممالک میں بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ چین میں اس نوعیت کے 10 کنویں کھودے جا رہے ہیں۔ آسٹریلیا میں تھرکول جیسے ذخائر سے 4 ہزار میگاواٹ، ازبکستان میں 400 میگاواٹ سپین میں 550 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور یہ ذخائر بہت کم ہیں جبکہ پاکستان کے ذخائر کا شمار دنیا کے عظیم ترین ذخائر میں ہوتا ہے۔یہاں چائنا مٹی کے وسیع ذخائر ہیں تو قیمتی پتھر اور جپسم بھی موجود ہے۔یہاں اگر گلہ بانی کو فروغ دیا جائے تو یہ علاقہ ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی صحت مند جانوروں اور گوشت کی فراہمی کا مرکز بن سکتا ہے۔
یہاں کے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کی عدم دستیابی ہے۔تھرپارکر کے ایک علاقے ننگرپارکر کے ایک گائوں میں امدادی سامان کی تقسیم کے دوران میں ایک ایسی ہی جھونپڑی میں قدم رکھا تو اس کے مکینوں نے پانی کاگلاس فوری پیش کیا۔ ان کی محبت دیکھ کر گلاس تھاما اور پینے کیلئے لبوں کے ساتھ لگایا گیا۔ پانی کا گھونٹ منہ میں داخل ہوا تو ایسے لگا کہ جیسے یہ پانی سادہ نہیں بلکہ بے تحاشا نمک گھول کر پیش کیا گیا ہے۔ دماغ کو جھٹکا لگا کہ کیا پئے جا رہا ہوں؟ کہیں یہ مذاق تو نہیں؟ فوراً فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ترجمان سلمان شاہد کے یہ الفاظ یادوں کے جھروکوں سے آ جھلکے کہ ”تھرپارکر کے لوگوں کا میٹھا پانی وہ ہے جو ہمارے ہاں میں کھارا اور نمکین ہوتا ہے” یہ پانی نجانے کتنی دور سے ہمارے لئے لایا گیا تھا
جسے یہ لوگ پینے کو ترستے ہیں۔یہاں انہی مشکلات کو دیکھتے ہوئے فلاح انسانیت فائونڈیشن نے پانی کی فراہمی کے لئے کنوئوں کی کھدائی کا وسیع سلسلہ شروع کیا تھا اور اب تک 1000 کے لگ بھگسے زائد کنویںکھود کر بے شمار انسانوں اور حیوانوں کے لئے پانی کا اہتمام کیا جا چکا ہے۔یہاں کنویں کی تیاری اوپر سے نیچے کھدائی کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے سیمنٹ کے ذریعے سے پختہ بنا کر ہوتی ہے۔ باہر کھڑے مزدور سیمنٹ اور بجری تیار کر کے نیچے اتارتے ہیں اور نیچے کھدائی کرنے والا مستری جہاں مٹی اور پتھر کھودتا اور انہیں باہر نکالتا ہے تو وہیں ساتھ ہی ساتھ سیمنٹ لگا کر کنواں بھی بناتا چلا جاتا ہے… نیچے سیمنٹ، بجری پہنچانا اور پھر مٹی اور پتھر باہر نکالنا اور اندر کام کرنے والے مستری کو اتارنا اور چڑھانا انتہائی جان جوکھم والا مرحلہ ہوتا ہے۔ کہیں اس کام کے لئے 5سے 7افراد مل کر رسہ کھینچتے ہیں تو کہیں یہ کام اتنے ہی افراد کے ذریعے سے چرخی گھما کر لیا جاتا ہے اور کہیں یہ کام دو گدھوں کے گلے میں رسی ڈال کر اور انہیں کئی افراد کے ساتھ ہانک کر اور مل کر زور لگاتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
100فٹ نیچے جانے کے بعد آکسیجن کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پھر جیسے جیسے نیچے نمی اور پھر پانی آنا شروع ہوتا ہے، تعمیراتی کام مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ نیچے کام کرنے والا مستری ہر 15سے 20منٹ بعد باہر آتا ہے اور سانس بحال کرنے کے بعد دوبارہ نیچے اترتا ہے، ساتھیوں نے اصرار کیا کہ آپ بھی ذرا نیچے اتر کر نظارہ تو کیجئے… اسی کے ساتھ 60فٹ نیچے کنویں میں اترتے ہوئے دل دھک دھک کرنے لگا۔ نیچے پہنچ کر یوں لگا جیسے کسی نیم گرم تنور میں داخل ہو گیا ہوں۔ نیچے کام کرنے والے مزدور کا جسم پسینے سے شرابور اور کپڑے مکمل طور پر تر تھے تو پسینہ پائوں سے بھی نیچے بہتا جا رہا تھا۔ ان لوگوں سے پوچھنا شروع کیا کہ اس کنویں کی تعمیر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو سبھی کی زبان سے نکلنے والے الفاظ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے لئے دعائوں پر ہی مشتمل تھے۔ ساتھ ہی کہہ رہے تھے کہ یہ کنواں مکمل ہونے کے بعد ان کا میلوں کا سفر کم ہو جائے گا، ہم، ہمارے بچے اور عورتیں قریب سے ہی پانی بھر لیں گے، اور جب تک ہم زندہ ہیں آپ کو ہمیشہ دعائیں دیتے رہیں گے۔ آپ نے جو کام شروع کیا ہے، اس کا تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔اگر یہاں بجلی کا انتظام کر دیا جائے تو یہاں کی جہنم ،جنت میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔
دو سال پہلے جب تھرپارکر میں معصوم بچوں کی قحط سالی اور دوا کی عدم دستیاب سے مٹھی ہسپتال میں قحط زدگان کے ہڈیوں سے پنجرے بنے بچوں کی اموات کی خبریں دنیا تک پہنچیں تو اس وقت بھی جماعة الدعوة پاکستان کا فلاحی و رفاہی ادارہ فلاح انسانیت فائونڈیشن FIFجسے اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ مصیبت زدگان کی امداد کیلئے سب سے پہلے پہنچنے کا اعزاز عطا فرما رکھا ہے، نے یہاں بھی اپنا اعزاز برقرار رکھا۔ شاید اسی لئے اس کا نام FIFسے فلاح انسانیت فائونڈیشن رکھا گیا لیکن اللہ نے اسے FIF سے ”فرسٹ از فرسٹ” بھی بنا دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت بھی نظر آتی ہے۔ اسی کا تو ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ”السابقون السابقون” کی صورت میں ذکر فرمایا ہے کہ سب سے آگے رہنے اور نیکی میں سبقت کیلئے بڑھنے والوں کا مقام اعلیٰ تو ہے ہی ان کا تو نیکی کا اجر بھی سب سے بڑھ کر ہے۔
بچوں کی اموات کی خبریں اور ان کا درد جب انسانیت کے درد میں ڈوبے FIFکے چیئرمین حافظ عبدالرئوف کے کانوں تک پہنچا تو وہ تڑپ اٹھے، فوری فون اٹھایا اور جماعة الدعوة سندھ کے ترجمان خالد سیف کو وہاں پہنچنے اور امدادی مشن کے آغاز کی تلقین کی۔ خالد سیف دیگر جماعتی بھائیوں خصوصاً طیب گھمن کو لے کر یہاں پہنچے اور تو کچھ نہ تھا، اپنی جیب سے ہزاروں روپے خرچ کر کے دودھ، جوس، بسکٹ، بوتل بند پانی وغیرہ خریدے اور ہسپتال پہنچ کر متاثرین قحط کے بچوں اور لواحقین میں تقسیم کرنے لگے۔ ہسپتال کی انتظامیہ اور عام لوگ حیران تھے کہ یہ کون لوگ ہیں جو یہاں آ پہنچے ہیں اور بغیر کسی لالچ اور غرض و غایت کے ان کی جانیں بچانے میں مصروف ہیں، دوسرے ہی دن حافظ عبدالرئوف بھی یہاں پہنچ چکے تھے۔ ہر طرف فلاح انسانیت فائونڈیشن کے کام کی دھوم مچ چکی تھی اور پھر جب وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ یہاں پہنچے تو وہ بھی فلاح انسانیت فائونڈیشن کے کارکنان کو داد دینے اور حوصلہ افزائی کئے بغیر نہ رہ سکے۔
یہاں اب تک فلاح انسانیت فائونڈیشن سینکڑوں لوگو ں کو گھر جو جھونپڑی نما ہوتے ہیں، بنا کردے چکی ہے۔ملک بھر سے ماہر ڈاکٹر ز کی ٹیمیں علاقے میں دور دراز پہنچ کر مفت علاج کے ساتھ مفت دوائی بھی مہیا کرتی رہتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ قحط زدگا ن کو خشک راشن کی فراہمی بھی کئی سال سے جاری ہے۔رمضان میں روزہ داروں کے لئے سحر و افطا ر اور عید الاضحی پر قربانیاں کر کے ہزاروں لوگوں میں گوشت تقیسم کیا جا تا ہے۔اب مٹھی میں بڑے اسلامی مرکز کی تعمیر کے ساتھ یہاں ایک بڑے ہسپتا ل کی تعمیر بھی تیزی سے جاری ہے جس کے لئے ملک بھر سے اہل خیر کے دست تعاون کی ضرورت ہے۔
تحریر : علی عمران شاہین