counter easy hit

تہاڑ جیل اور ماہ فروری کا ہیرو

Tihar Jail

Tihar Jail

تحریر : ایم آر ملک
اونچی اونچی دیواروں والی تہاڑ جیل کی تاریخ کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ یہ کب اور کیسے وجود میں آئی لیکن تہاڑ نامی اس قصبے کے کے بارے میں کچھ کہنا ذرا مشکل ہے صدیوں پہلے یہ ایک چھوٹی سی بستی ہوا کرتی تھی چند کچے مکانات اور گھاس پھونس کے گھونسلے اور جھونپڑے جن کے چاروں طرف دور دور تک ویرانہ ،پھر یوں ہوا کہ دہلی کے حکام نے خطرناک قیدیوں کیلئے ایک الگ اور مضبوط جیل کی ضرورت محسوس کی ایک ایسی جیل جہاں سے قیدی فرار نہ ہوسکیں اس کیلئے دہلی شہر سے چند میل دور ویرانے میں جھوبنپڑیوں اور کچے مکانوں پر مشتمل تہاڑ نامی اس چھوٹی سی بستی کا انتخاب کیا گیا پہلے یہ جیل بہت چھوٹی سی تھی یہاں پر فرنگی سامراج نے آزادی کیلئے لڑنے والے اُن قیدیوں کو رکھا جو اپنی دھرتی کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے وقت کا پہیہ رواں دواں رہا اور فرنگی نے آزادی کے ان متوالوں کی کثیر تعداد پابند ِ سلاسل رکھی ہندوستان میں فرنگی کی پالیسیاں جنتا کو فرنگی کے خلاف سر اُبھارنے پر مجبور کرنے لگیں

ہند میں فرنگی کا تسلط ٹوٹنے لگا سیاسی شورشوں کے ساتھ فرنگی کے نزدیک آزادی کے باغیوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہونے لگا بعض علاقوں پر تو عملاً آزادی کے متوالوں کا راج تھا فرنگی ان آزادی کے متوالوں سے نبرد آزما تھا دہلی کی صورت حال اس سلسلے میں سب سے ابتر تھی پکڑے جانے والے آزادی کے ان متوالوں کو لمبی سزا دینے کیلئے کوئی جیل یا قید خانہ مطلوب تھا یوں ایک ویرانے میں تہاڑ نامی جیل کا قیام عمل میں آیا دہلی شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تہاڑ نامی جیل !جس کی سنگین اونچی دیواروں کے پیچھے قیدیوں کی طرح ہزاروں ایسی داستانیں ملتی ہیں تاریخ کی زبان میں ان داستانوں کا ایک ایک لفظ انسانیت کے رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے کافی ہے

وقت کے بے زباں ہیولوں نے ان اونچی دیواروں کے اندر انسانیت کو سسکتے ہوئے دیکھا ہزاروں بے گناہوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑتے ہوئے دیکھ کر بے زباں وقت بھی اپنی آنکھیں بند کرنے پر مجبور ہو گیا فرنگی سامراج نے اور سیکولر انڈیا نے یہاں ایسے ایسے مظالم آزادی کے متوالوں پر ڈھائے بے گناہ قیدیوں پر تشدد کے ایسے ایسے حربے استعمال کئے کہ ان متشدد قیدیوں کی طرح وقت کے پر بھی پھڑ پھڑا کر رہ گئے کشمیر جنت نظیر آج دنیا بھر میں آزادی کے متوالوں کی جدوجہد کی بنا پر ساری دنیا کی نگاہوں کا مرکز ہے اس وادی آہ و فغان سے بلند ہونے والے شعلے بھارتی جبر و تشدد کی ان گنت داستانیں دنیا کو سنا رہے ہیں۔

دہلی کی تہاڑ جیل اور شہید تحریک آزادی مقبول بٹ لازم و ملزوم ہو گئے ہیں ایک کا نام لو تو دوسرا خود بخود ذہن کی آماجگاہ بنتا ہے تہاڑ جیل کی وجہ شہرت بھی مقبول بٹ شہید ہے
جنت نظیر وہ دھرتی جو پکار رہی ہے کہ میرے مقدر کے تلوئوں میں منزل کی رسائی کیوں نہیں جو آزادی کی رسائی کو پانے کیلئے لمحے لمحے کی اذیت سہہ رہی ہے ،جس کے وجود میں ہزار ہا قربان گاہیں ہیں ،ہزار ہا بے کسوں کے وجود دفن ہیں اس بلکتی دھرتی ،اس زخمی وطن اور چپہ چپہ لہو لہان سرزمین کا مان مقبول بٹ جیسے شہداء ہیں 11فروری1984ء کو جان جان ِ افرین کے حوالے کرنے والے تحریک آزادی کشمیر کے اس سپوت نے تہاڑ جیل میں پھانسی کا پھندہ تو قبول کر لیا مگر اپنے خدا ،اپنے رسول اور اپنے ایمان کے بعد وطن کی خاک کو سب کچھ ماننے والے نے یہ ثابت کیا کہ آزادی کے ثمر کو پانے کیلئے زندگی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی

کشمیری نمائوں کی وہ ساری دعائیں ،وہ مناجاتیں جو دل کی سر زمین پر کسی سر سبز فصل کی طرح لہلہاتی ہیں مقبول بٹ شہید کے نام محبت بھرے جذبات و احساسات جو سچائیوں کی گرہوں سے بندھے ہوئے ہیں تمہارے نام ،آزادی کیلئے سر بکف لمحوں کی بازگشت تمہارے نام کشمیریوں کی وہ ساری شامیں جن میں تمہاری یاد دل کی دھڑکن بن کر دھڑکتی ہے،

گھڑی کی سوئیوں کی طرح ٹک ٹک کرتے ہوئے احساس محبت دلاتی ہے یہ احساسات تمہارے نام کائنات میں پھیلے ہوئے رنگ ،رنگوں کی خوبصورتی ،جاذبیت تمہارے نام ،کشمیر کی آزدی کی لئے بے قرار وہ لمحے جو بند مٹھی میں قید ہیں وہ پل تمہارے نام حب الوطنی یقیناً قربانی مانگتی ہے اور تمہاری اس قربانی کا خراج ہر کشمیری پر قرض ہے

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک