تحریر : شاہد شکیل
ہر ماں باپ کے لئے ان کی اولاد ایک خزانہ اور قدرت کا انمول تحفہ ہے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اولاد سے بیزار ہو یا نفرت کرے لیکن آج ایسا وقت آگیا ہے کہ ماں باپ اولاد پر یا اولاد والدین پر بوجھ بن گئے ہیں دوطرفہ پیار محبت ،عزت ،احترام، خلوص کو وقت کی دو دھاری تلوار زنگ آلودہ کر رہی ہے، میڈیا میں آئے دن خبریں نشر ہوتی ہیں کہ بیٹے نے ماں کو یا باپ کو محض چند روپوں کیلئے قتل کر دیا یا غربت سے تنگ آکر ماں نے معصوم بچوں سمیت خود کُشی کر لی ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے ؟ ماں باپ ،اولاد ، زمین ، خطہ ، غربت ، جہالت، مادہ پرستی ، لالچ و ہوس ،قوانین یا حکومت؟۔
اگر مغربی ممالک میں اولاد ماں باپ کی عزت و احترام نہیں کرتے تو عجب بات اس لئے نہیں کہ موجودہ دور میں کلچرل نہیں بلکہ تیز رفتار زندگی کو دیکھتے ہوئے کئی سالوں سے قوانین رائج ہیں کہ بچے اٹھارہ سال کی عمر کے بعد چاہیں تو والدین سے کنارہ کَشی کر سکتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ والدین دھکے دے کر یا قوانین کی رو سے بچوں پر دباؤ ڈالیں کہ اب تم اٹھارہ سال کے یعنی بالغ ہو چکے ہو لہذا یہ گھر چھوڑ دو ، لیکن ما حول یا سسٹم ایسی ڈگر پر رواں ہو چکا ہے کہ کوئی کسی کو کچھ نہیں کہتا بلکہ ایک روٹین کے تحت کئی بچے اپنی اٹھارویں سالگرہ والدین کے ساتھ مناتے ہیں۔
پہلے سے طے شدہ پلان یا پروگرام کے تحت والدین کے گھر سے رخصت ہونے کے بعد اپنی زندگی اپنے طور طریقے سے گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر زندگی کے کسی موڑ پر انہیں والدین کی ضرورت پیش آئے تو والدین ان سے منہ نہیں موڑتے بلکہ ہر ممکن طریقے سے انکی امداد کرتے اور مسائل سے چھٹکارا دلاتے ہیں ،مغربی ممالک میں شاز وناظر ہی ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ بچوں نے والدین کو قتل کر دیا یا والدین نے بچوں کی جان لے لی اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں ایسے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے۔
مغربی ممالک میں سوشل سسٹم اتنا پاور فل ہے کہ حکومت کسی کو بے گھر نہیں ہونے دیتی اور نہ بھوکا مرنے دیتی ہے ،غربت اور غربت میں فرق صرف اتنا ہے کہ مغربی ممالک میں ایک بے روزگار کو سر چھپانے کئے چھت اور دو وقت کی روٹی کیلئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے نہ سڑکوں ، پُلوں یا فٹ پاتھوں پر کھلے آسمان تلے اینٹوں کا تکیہ بنا کر رات بسر کرنی پڑتی ہے یا اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کئے مزدوری ملنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے یا اگر روزگا ر مہیا نہ ہو چکے تو چوری کرنی پڑتی ہے یا غربت سے تنگ آکر خود کُشی جیسے اقدام کرنے پڑتے ہیں کون ذمے دار ہے ان تمام واقعات کا ،والدین،اولاد یا حکومت؟۔
فِن لینڈ کی یونیورسٹی آف ہیلسنکی کے سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد بتایا کہ جو افراد نوجوانی میں شادی کرنے کے بعد باپ بنتے ہیں وہ طویل عمر نہیں پاتے اور جلد موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں،کیونکہ جوانی میں خاندان میں بچوں کی پیدائش کے بعد انکی پرورش و دیکھ بھال کرنے کے سبب اپنی صحت پر دھیان نہیں دیتے اور اپنے خاندان کی کفالت کرنے میں مگن رہتے ہیںجس کے سنگین نتائج برامد ہوتے ہیںاور ساٹھ سال کی عمر تک پہنچے سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے بیس اکیس سال کی عمر میں شادی کرنے والے افراد زیادہ خطرات میں زندگی بسر کرتے ہیں بہ نسبت تیس سال سے زائد عمر میں شادی کرنے والوں کے۔کم عمری میں شادی اور اس کے اثرات پر ماہرین نے جرنل آف ایپی ڈیمائیلوجی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا کہ جوان لوگ خاندانی مسائل میں گِھر کر سٹریس میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن میں سرفہرست خاندان کی دیکھ بھال اور مختلف کشید گیاں ہیںاور اس تشویش میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو میرے خاندان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔
اسی ذہنی دباؤ میں آکر ان کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور ساٹھ سال کی عمر سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق بائیس سال کی عمر میں شادی کرنے سے چھبیس فیصد اموات کا رسک ہوتا ہے کہ پینتالیس سے چون سال کی عمر تک پہنچنے پر موت واقع ہو سکتی ہے۔فن لینڈ میں تیس ہزار پانچ سو افراد پر تحقیق کی گئی جو انیس سو چالیس اور انیس پچاس کی دہائی میں پیدا ہوئے اور کم عمری میں شادی کرنے سے قبل از وقت موت کا شکار ہو گئے ،موت کا شکار ہونے والوں کے بارے میں بتایا گیا کہ کم عمری میں شادی کرنے سے انسان پختہ ذہن نہیں بن سکتا۔
یہ خام خیالی ہے کہ شادی کے بعد ذمہ داری یا خاندان کا بوجھ سر پر پڑے گا تو پختہ ذہن ہو جائے گا یا ذمہ دار شخصیت بن جائے گا۔ماہرین کا کہنا ہے ساٹھ یا ستر سال قبل ہونے والے واقعات کا آج کے ترقی یافتہ دور سے مقابلہ یا موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن آج کے دور میں جہاں شادی کرنے کا رحجان ہی ختم ہورہا ہے وہاں کم عمری میں شادی کے بندھن میں بندھ جانا سراسر بے وقوفی ہے،کیونکہ جب تک نوجوان تعلیم کے بعد کسی پروفیشن یا من پسند جاب حاصل نہیں کر سکتے۔
ذہنی طور پر آمادہ نہیں کہ کیا کم عمری میں شادی کے بعد اس رشتے کو نبھا پائیں گے بھی کہ نہیں شادی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ شادی صرف ایک نام نہیں ایک مکمل زندگی ہے جس میں فیملی ممبرز کا اضافہ ہونا ممکن ہے اور اگر تعلیم کے علاوہ پرمستقل روزگار نہ ہو تو مسائل کا انبار زندگی کو کم کرتا رہتا ہے اور یہی وجوہات ہیں کہ کئی افراد کم عمری میں شادی کرنے سے جلد عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ قبل از وقت موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
تحریر : شاہد شکیل