تحریر: شاہ فیصل نعیم
یہ مقام کسی بھی وقت انسان کی زندگی میں آسکتا ہے، اُسے کسی بھی وقت سوچ مل سکتی ہے ، وہ کسی بھی وقت زندگی کا آغاز کر سکتا ہے پھر اس سے فرق نہیں پڑھتا کہ وہ زندگی کے کس دور سے گزر رہاہے آیا وہ ابتدا میں ہے، درمیان میں یا اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہا ہے ۔ اہم یہ ہے کہ وہ ایک ایسے دور سے باہر آگیا ہے جہاں زندگی اُسے گزار رہی تھی ۔ ایسا انسان مبارکباد کا مستحق ہے اُسے ایک نئی زندگی مبارک ہو کیونکہ اُس نے ایک ایسی دنیا میں قد م رکھا ہے جہاں زندگی اُسے نہیں بلکہ وہ زندگی کوگزارے گا۔وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کی مقصدیت کو نہیں کھوجا بھیڑ بکریوں کے اُس ریوڑے کی مانند ہیں جس کوجس طرف ہانکا جائے وہ اُسی طرف چل نکلتا ہے اُنہوں نے اپنے آپ کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ایسے لوگو ں کی زندگی قدرے آسان ہے ۔
کتنا آسان ہے بغیر کسی تڑپ کے زندگی گزارنا جہاں دنیا کو کوئی نئی سوچ دینے کی کوئی فکر نا ہو۔ ایک مڈل کلاس زندگی جسے عام الفاظ میں آپ یوں کہہ لیں کہ تنخواہ دار کی سی زندگی جس کی سوچ ایک مہینے سے آگے سفر نہیں کرتی اُس کی ساری سوچ یکم تاریخ سے شروع ہو کر مہینے کے آخر تک سفر کرتی ہے اور پھر یکم تاریخ پر شفٹ ہو جاتی ہے۔ وہ صرف اتنا ہی کماتا ہے جس سے ایک مہینہ اچھے سے گزر جائے ، ایک مہینے سے آگے وہ کبھی نہیں سوچتا اور اُس کی زندگی میں اکثر ایساہوتا ہے کہ مہینے بھر کی تنخواہ مہینہ ختم ہونے سے سات دن پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے اور پھر باقی سات دن قرض لیکر کر گزارنے پڑتے ہیں ایسی زندگی گزارنے والے بھی عام لوگ ہیںجو لاکھوں روپے اور اپنی زندگی کا ایک تہائی حصہ برباد کرنے کے بعد بیس تیس ہزار کی نوکری کررہے ہوتے ہیں یا نوکری کے لیے در بدر کی خاک چھان رہے ہوتے ہیں۔کچھ لوگوں کی زندگی ہفتے کے گرد گھومتی ہے وہ ہفتے سے باہر سوچنا گناہِ کبیرہ خیال کرتے ہیں ۔
وہ صرف اتنا ہی کماتے ہیں کہ ایک ہفتہ آسانی سے گزر جائے اگر وہ ایک ہفتہ گزارنے کا انتظام ایک دن میں کر لیتے ہیں تو باقی کے چھے دن انہوں نے سوکر گزاردینے ہیں ہفتے کے باقی دنوں میں اُن کی زندگی میں کوئی کام نہیں وہ کام سے آزاد ہیں ایسے لوگ غریب لوگوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں جن کو جیسے حالات ملے وہ اُن کو ویسے یا اُس سے بھی بدتر حالت میں چھوڑ کر چلے گئے اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں کرسکے ایسے لوگ بھی عام انسانو ں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ان دونوں سے بھی عام ہیں وہ لوگ جو صرف ایک دن تک سوچتے ہیں ان کی زندگی ایک دن سے باہر نہیں جاتی ہے وہ ایک دن کے لیے کماتے ہیںوہ ایک دن کو گزارنے کے لیے آمدن ایک گھنٹے میں جمع کر لیں یا چوبیس گھنٹوں میں اگر اُنہوں نے ایک دن کی آمد ن ایک گھنٹے میں حاصل کر لی ہے تو باقی کے ٢٣ گھنٹے میں وہ کوئی کام نہیں کرتے کیونکہ ٢٤ گھنٹو ں میں انہوں نے جو مقصد حاصل کرنا ہوتا ہے وہ انہوں نے ایک گھنٹے میں حاصل کر لیا تو باقی وقت فقط عیاشی کا ہے ایسے لوگ بھی عام لوگوں کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں۔
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوںنے اپنی پیدائش کے مقصد کو پہچان لیا ہے وہ ایک بڑی سوچ کے حامل ہیں ۔ اُن کی سوچ کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ اُن کے رستے میں حائل مشکلات سے لگایا جا سکتا ہے۔ آپ جتنی بڑی سوچ کے ساتھ میدانِ عمل میں اُترتے ہیں آپ کی مخالفت کرنے والے اُتنے ہی ہتھیاروں سے لیس آپ کے رستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔وہ آپ کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے، آپ کی سوچ کو بے بنیاد کہیں گے، آپ کو پاگل کہا جائے گا ، آپ کو اپنی سوچ کی وجہ سے اپنا ملک بھی چھوڑنا پڑ سکتا ہے اور ہو سکتا ہے آپ کو سولی پر بھی لٹکنا پڑے۔ اس سب میں دنیا والوں کو بھی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے جب آپ دنیا والوں کی سوچ سے بڑی سوچ والی بات کرتے ہیںتو دنیا آپ کو پاگل کہنا شروع کر دیتی ہے اور پاگل لوگوںکی اس دنیا میں جگہ نہیںیہ لوگ آپ کو جیتے جی جینے نہیں دیں گے اور جب اِن کو آپ کی سوچ کی سمجھ آئے گی تب وہ لوگ جو آپ کو پاگل کہتے تھے آپ کی سوچ کو پڑھنا شروع کر دیں گے۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ مگر آخر میں جیت بڑی سوچ کی ہی گی۔
قتل کے ارادے سے نکلنے والا عمرایک واقعہ کی وجہ سے فاروقِ اعظم کے درجے کو پہنچتا ہے، شہزادوں کی طرح زندگی بسر کرنے والا عمر بن عبدالعزیز حکمرانی ملتے ہی فقیرانہ زندگی بسر کرنے لگتا ہے، دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی سے نکالا جانے والا بل گیٹس ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیتا ہے، ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے ہاتھ میں چند پیسے لیے رنگ سازی کے کاروبار کے لیے نکلے عبدالستار ایدھی کی زندگی سے ایک واقعہ گزرتا ہے جو اُسے دنیا کی سب سے بڑی فلاحی سروس کا مالک بنا دیتا ہے اور تاریخ بھری پڑی ہے ایسے لوگوں سے جن کی زندگی سے کوئی واقعہ گزرا اور انہوں نے اپنی زندگی کے مقصد کو پہچان لیا۔ یہی ہے وہ Turning Point جو کسی بھی انسان کی زندگی میں کسی بھی وقت آسکتا اُسے کسی بھی وقت ایک آفاقی سوچ مل سکتی ہے اور نا ختم ہونے والی زندگی جی سکتا ہے۔
تحریر: شاہ فیصل نعیم