تحریر : شیخ خالد ذاہد
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
ہم سب محمود و ایاز سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔۔۔۔۔اس واقفیت کی اہم ترین وجہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں۔ ۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ بالا شعر کی مدد سے دونوں شخصیات کو اردو ادب میں امر کر دیا۔۔۔۔وہ اپنے کردار کی وجہ سے تو تاریخ میں یاد رکھے ہیں۔۔۔۔اب ذرا اس تعلق کہ حوالے سے یہ پڑھئے ۔۔۔۔۔۔سلطان محمود غزنوی نے اپنے غلام آیاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا اس پر ایسا جملہ لکھوا دو جسکو میں خوشی میں پڑھوں تو غمگین ہو جاؤں اور غمی میں پڑھوں تو خوش ہو جاؤں۔۔۔۔۔۔آیاز نے اس پرایک سادہ سا مگر تاریخی فقرہ لکھوا دیا وہ یہ تھا ” یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔
آپ اگر پاکستانی ہیں اور پاکستانی سیاست پر ایک طائرانہ نظر ڈالئے تو آپ کو اس جملے کی بازگشت سنائی دے گی۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں اس جملے سے بھرپور مستفید ہونے والی بڑی بڑی ہستیاں موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔ جو اس جملے کا حقیقی مقصد و معنی سلطان محمود غزنوی اور آیاز سے کہیں زیادہ سمجھ گئے ۔۔۔۔۔ پچھلی دو دہائیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو یہ جملہ ہر طرف سنائی دینے کہ ساتھ ساتھ نظر بھی آئے گا۔۔۔۔۔ اور ہر مسلئہ جس کی نشاندہی آپ کرینگے وہ آپ کو یہی کہتا سنائی دے گا۔
یعنی گاڑی جیسے چلانی ہے ویسے ہی چلے گی ۔۔۔۔۔ اور اسکی سمت کا تعین بھی ہم خود کرینگے۔۔۔۔۔ اس جملے کو صادق کرانے میں ہمارا (عوام الناس ) بہت بڑا ہاتھ ہے بلکہ ہاتھ کیا ہم ہی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کہ سیاستدان صرف اور صرف اپنی ہی فکر میں اقتدار میں آنے کہ خواہش مند ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ایسے ایسے مباحثے کرتے ہیں کہ عاقل کی عقل دنگ رہے جائے ۔۔۔۔۔ افسوس اس امر کا ہے کہ سڑکوں پہ نکلنے کیلئے مسائل کی سنگینی سے آگاہ کرانے کیلئے کوئی تیار نہیں۔۔۔۔۔
دنیا جہان میں عوام کہ حقوق ادارے اور حکومتیں بھرپور طریقے سے ادا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ان ممالک کی عوام اپنے حقوق پر قدغن برداشت نہیں کرتیں۔۔۔۔۔۔وہ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اپنے حقوق واپس لے کر ہی گھروں کو واپس لوٹتے ہیں ۔۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ ایسی عوام کہ حکمران اپنی ذمہ داریوں کو بہت احسن طریقے سے سمجھتے ہیں اور انہیں انجام دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔بلکہ عوامی خدمات کی مثالیں قائم کرنے کی کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بہت تکلیف کیساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان شائد دنیا کا وہ واحد ملک ہے۔۔۔۔۔۔ جہاں جس کا جو دل چاہتا ہے کرتا پھرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی گدھے کا گوشت بیچتا ہے۔۔۔۔۔ کوئی کروڑوں ڈالر بیگ میں ڈال کر دنیا کی سیر کو نکل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔کوئی جالی دوائں مریضوں کی مشکل آسان کرنے کیلئے بناتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔کوئی عوام کا پیسہ اپنے ذاتی علاج معالجے پر خرچ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔کوئی حکومت میں اس لئے آتا ہے کہ اسے دنیا کی سیر کا شوق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی موٹر سائیکل والے کی تلاشی لے کر اسے لائسینس نہ ہونے پر بیس روپے لے کر جانے دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی کچرا گھر کا دورازہ بغیر کھولے ہی پیھنک دیتا ہے۔
کوئی بیچ شاہراہ میں دوران ڈرائونگ موبائل فون پر محوگفتگو نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔ کوئی فٹ پاتھ پر بیٹھا سر عام نشہ کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی چھوٹی چھوٹی گاڑیوں کی تلاشی لے کر بڑی مستعدی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور وہی بڑی بڑی گاڑیوں کو بغیر روکے سلوٹ مار رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی اپنی سہولت کیلئے سڑک کھود رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی اپنی مرضی سے پانی کی لائن ڈال رہا ہے۔
عام گلی اور شاہراہ میں کوئی تمیز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔کوئی پان سیگریٹ گٹکا کھانے کی بدل میں کھا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ہم اپسی ایک دوسرے کو بری طرح سے گالیاں بک رہے ہیں لڑرہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تہذیب و تمدن کہ لفظوں سے نہ آشنا لوگ ذہنی مریضوں کی مانند اکیلے بیٹھے ہیں تو خود سے ہی باتیں کیئے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم پیدا ہوئے تھے اور ہمیں مرجانا ہے۔۔۔۔۔۔یعنی ذہنی طور سے معذور ہوئے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعلیم تربیت شعور سے عاری ہوچکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس ملک میں عزت دار وہ کہلاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو حقیقت میں ۔۔۔۔۔۔ جانے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارے پیارے وطنِ عزیز کا حال ہے ۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ بالا معاملات کی وجہ سے ہمارے حکمران خوشی خوشی حکومت کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔ مخالف جماعتیں اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔۔۔۔اپنی باری کی آس میں ۔۔۔۔۔بس یوں سمجھ لیجئے سب مل بانٹ کر ہم عوام کی بے حسی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے مزے کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کل جب یہ لوگ مر جائینگے تو ان کی اولادیں معتبر ہوجائنگی ۔۔۔۔۔۔۔ہمارا خون چوسنے کیلئے تیار ہوجائنگی۔۔۔۔۔۔عوام عوام ہی رہیگی۔۔۔۔۔۔۔گیس، بجلی، پانی، نادرا کی لائنوں میں کھڑی رہیگی۔۔۔۔۔۔پیدائش کا سرٹیفیکیٹ بنوانے سے لے کر مرنے کا سرٹیفیکیٹ بنوانے تک۔۔۔۔۔۔ہم یونہی لکھتے رہیں گے ۔۔۔۔۔ اس نے یہ کر دیا اسکو یہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔۔۔۔۔۔
دراصل حقیقت یہ ہے کہ محمود غزنوی کو جناب آیاز نے مذکورہ فقرہ پاکستانی قوم کی حالت قبل از وقت دیکھ کر کہا ہوگا۔۔۔۔۔دور اندیشی کی نظر سے۔۔۔۔۔۔یہ بھی اپنے سلطان کی خدمت میں عرض کیا ہوگا کہ ایک قوم ایسی بھی آئے گی جسے صرف اسی فقرے کہ سہارے زندگی گزارنی ہوگی ۔۔۔۔اب سمجھ میں آتا ہے وہ غلام کتنا ذہین تھا۔۔۔۔۔اے ربِ کائنات ہمیں کوئی آیاز جیسا ہی حکمران دے دیجئے ۔۔۔۔ہمارے حکمران (کسی بھی سیاسی و مذہبی پارٹی سے وابسطہ ہوں) اور ہم عوام دونوں ہی اس جملے کہ سہارے قبر تک کا سفر کئے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
وہاں تو انگشت پر لکھوایا تھا یہاں تو ہمارے دلوں پر لکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری آنکھوں کی پتلیوں پر لکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری سماعتوں پر لکھا ہوا ہے ۔۔۔۔۔یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
تحریر : شیخ خالد ذاہد