تحریر: کوثر ناز
یہ فتوی ہے شیخ کا، یہ زمانہ ہے قلم کا
دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر
دورِ حاضر وہ زمانہ نہیں جب طاقت کا دارومدار ہتھیاروں پر ہوا کرتا تھا جہاں طاقت کا مطلب تلواروں یا اوزاروں کو مانا جاتا تھا، دورِحاضر قلم کا زمانہ ہے اور اس کی طاقت سے کوئی انکاری نہیں۔ پْرانی کہاوت ہے کہ ” لفظ کی مار تلوار کے وار سیذیادہ گہرا زخم کرتی ہے”۔ صدیوں سے زمانے میں ہر جگہ قلم اور قلمکاروں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کا علم ادب و ادیب معاشرے کا فخر ہوتے ہیں۔ قلمکار اپنی جگہ اپنے قلم سے نکلنے والے پْر اثر لفظوں کے ذریعے بناتا ہے، قلم اس کامل اور قابلِ فہم تجزیاتی صلاحیت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی مادی یا غیر مادی شے سے منفی یا مثبت پہلوؤں سے روشناس کرواتی ہے۔
کہتے ہیں زندگی میں قسم، قدم اور قلم بہت سوچ سمجھ کر اْٹھانی چاہیئے، میرا ماننا ہے کہ قلم، لفظ، کتابیں ہتھیاروں سے ذیادہ پْر اثر ہوتی ہیں، کیمبرج ڈکشنری ویب سائٹ کے مطابق بھی اس کہاوت پر زور دیا ہے کہ” فکروتحریر کا لوگوں پر تشدد اور طاقت کے استعمال سے ذیادہ ہوتا ہے”۔ اہلِ قلم ہی نہیں سبھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ قلم کی طاقت کا موازنہ کسی شے سے ممکن نہیں اس لیئے قلم کا صحیح ہاتھوں میںرہنا ملک و قوم اور معاشرے کے کامیاب اور روشن حال و مستقبل کے لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ یہ اگر قابل لوگوں کے ہاتھ میں ہو تووہ زمانے فتح کر لیتا ہے، ظلم و جبر کا کاتمہ قلم کے ہاتھوں ہی ممکن ہوتا ہوا سا محسوس ہوتا ہے۔ قلم کا اختیار سْلجھے ذہنوں کے پاس ہو تو معاشرے کے بگاڑ کا توڑ صاحبِ قلم نکال لیتے ہیں یہ سْتھرے ذہنوں ہی کا حق ہے کی اسے معاشرے کے سْدھار کی لیئیوہ اْسے اْٹھا?۔
کہتے ہیں بات لفظوں کی نہیں لہجے کی ہوتی ہے دلوں کو تسخیر باتیں نہیں لہجے کیا کرتے ہیں اسی طرح قلم ہماری سوچ کا لہجہ ہوتا ہے ، ہماری سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے، قلم کی روشنی میں جو علم ہم معاشرے میں پھیلاتے ہیں یہ قلمکار پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ دلوں کو جیتتا ہے یا صدیاں بگاڑ دیتا ہے۔ شاعر نے بہت خوب کہا ہے کہ؛
?علم کرتا ہے زمانے میں ثمینی پیدا
جہل انسان کو صدام بنا دیتا ہے۔
قلم کی روشنی جہاں پڑتی ہے وہاں علم و آگہی لے نئے در وا کرتی ہے، شعور کو جلا بخشتی ہے،بند ذہنوں کی گرہ کھول دیتی ہے، قلم ہی کی روشنی میں جو لفظ قلم کے سچے قدردانوں کے ذریعے صفحات پر بکھرتے ہیں تو وہ لفظ موتی بن جاتے ہیں۔ اپنی قلم سیسیدھی سچی اور کھری بات لکھنا جہاد بھی کہلاتا ہے خود حضورِپاک? کا ارشاد ہے کہ “اپنے ہاتھوں اور زبان سے جہاد کرو” یہ جہاد بل قلم کہلاتا ہے۔آپکے الفاظ جہاں آپکی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں وہی بہت سے کچے ذہنوں پر بھی گہرا اثر کرتے ہیں، قلم کے ذریعے جب قلمکار صفحے پر دکھ اور درد بکھیرے تو اکثر کے ضمیروں کو جھنجوڑ دیتا ہے تو کچھ لوگ خون کے آنس ومعاشرے کی بے حسی، نوجوانوں کی بے راہ روی پر بہاتے نظر آتے ہیں۔
قلم کی روشنی جس معاشرے پر پڑتی ہے زمانہ انکے دن بدلتے دیکھتا ہے تو کہیں انکی روشن راتیں، ہمیشہ سے صاحب قلم لوگوں نے باخوبی قلم کا حق ادا کیا ہے اور کرتے رہیں ہیں مگر کچھ ایسے غدار بھی ہیں جو ملک کی جڑوں پر قلم چلانے کی سازش کرتے نظرآتے ہیں،مفادات کی تیز آندھی نے قلم کا صحیح استعمال ڈگمگا دیا ہے، صاحبِ قلم اگر ہوس کا غلام ہوتو پھر قلم کی اس سے بڑی ناقدری نہیں ہو سکتی،کچھ ایسے افراد بھی صاحبِ قلم ہیں جو قلم کے دامن کو داغدار کرنے پر تْلے ہیں، اسکی حرمت روندنے کو تیار نظر آتے ہیں، اپنی لالچ اور ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کروہ قلم کے پیچھے اپنے مکروہ چہرے چپھا? وہ لکھتے ہیں جو ہمارے سرکاری ایوانوں میں نام نہاد عوامی نمائندے بیٹھے ہیں کہ حق میں ہو۔
وطنِ عزیز کے حکمران نہ سہی مگر قلمکار وطن کی حْرمت پر آنچ نہ آنے دیں گے کیونکہ قلم کے حقیقی وارث جب میدانِ عمل میں اْترتے ہیں تو پھر میدان نہیں صدیاں سْرخرو کر کے لوٹتے ہیں،ہمارے جانباز قلمکار سچ لکھنے سے قطعی نہیں کتراتے،اور جب ایسے قلمکاروں کا ساتھ ہو تو اس ملک کے دن رات بدلتے دنیا دیکھتی ہے،ہمارا یقین پْختہ ہے کہ ہمارے ملک کے قلمکاروں نے جب ایمانداری سے قلم کا مورچہ سنبھالا تو ہمارے معاشرے میں وارد تبدیلیاں دنیا کو چونکنے پر مجبور کر دیں گی،ہمارے مسائل ہماری بْرائیاں ازخود دم توڑ جائیں گی۔قلمکاروں کو چاہیئے کہ ذاتی تنقید کو برطرف رکھتے ہو?عوام تک حقیقت اور اصلاحی طرز کی تحریر پہنچائیں اور عوام میں شعور بیدار کریں ایک قلمکار معاشرے کی اچھائیوں کے علاوہ بْرائیوں پر تنقید کے ساتھ اسکا حل بھی سرکاری نمائندوں سے لے کر عوام تک پہنچاتا ہے۔
قلم کی طاقت کی اس مثال سے کون انحراف کر سکتا ہے کہ اگر وہ قلم کے عادل کے ہاتھ میں ہو تو کسی کی زندگی اور کسی کی موت لکھ دیتا ہے۔آج کے دور میںقلم کو اس طرح سے استعمال میں نہیں لایا جاتا جیسے کہ پہلے ہوا کرتا تھامگر اسکے باوجود قلم کی اہمیت و طاقت اپنی جگہ مْسلم ہے،جو قلمکار قلم کا غلط استعمال کرتے ہو? قلم کی حْرمت کو داغدار کرنے کا سبب ہیں ایسے افراد قلمکاروں کے قبیلے سے جْڑ کر معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں مگر اس کے باوجود ہماریحق کی آوازبنے قلمکار قلم کی تقدس کو بحال رکھتے ہو? ملک و قوم کے لیئے مْسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔
وہ با ضمیر قلمکار داد کے حق دار ہیں جو قلم کی حْرمت کو بچانے کے لیئے حق و سچ اور کھری بات لکھتے ہیں خواہ انہیں جان سے ہاتھ دھونے کا خطرہ ہی کیوں نہ ہوقلمکاروں کے قلم کی روشنی میں بکھری انکی تحریروں پر اْنہیں کل اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلم کی روشنی میں حق کی آواز کو اْجاگر کرتا ہے یا اپنی حرس و لالچ میں قلم کی روشنی کو اندھیروں میں دھکیلنے کی کوشش، بے ضمیر صحافی ملک و قوم لے لیئے سرطان جیسی حیثیت رکھتا ہیمگر حقیقی قلمکاروں کے جھرمٹ میں انکا لالچ انکی ہوس کچھ ذیادہ پْر اثر نہیں ہوتی ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے قلمکار اس قطعے کے مطابق میدانِ عمل میں سرگرم رہتے ہیں کہ
? ہم پرورش لوحِق قلم کرتے رہیں گے
جو دلوں پر گذرتی ہے وہ رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہلِ ستم، مشقِ ستم کرتے رہیں گے۔
تحریر: کوثر ناز