تحریر : رانا اعجاز حسین
یہ دنیا دار فانی اور عارضی ہے ، آخرت کی زندگی کو دیکھتے ہوئے دنیا کی زندگی بہت ہی قلیل ہے۔ ہر نفس نے یہاں مقرر مدت گزارنے کے بعد دار آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے۔جو مستقل اور ابدی ٹھکانہ ہے۔ بہ حیثیت مسلمان ہمیں وقت کی قدر کرنی چاہیے، کیونکہ ہم جانتے ہیںکہ دنیوی زندگی ، آخرت کی کھیتی کے مانند ہے۔ ہم آج جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں اس وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے خیرو بھلائی کے بیج بونے میں صرف کریں تو کل یوم قیامت ہمیں فلاح اور بھلائی کا ثمر ملے گا۔ارشاد ربانی ہے”(ان سے کہا جائے گا )خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ۔اور پیو ان (اعمال ) کے بدلے جو تم گذشتہ (زندگی) کے ایام میں آگے بھیج چکے تھے۔ ( سورة الحاقہ)”
اس کے بر عکس اگر اس زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت ، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی و شر فتنہ و فساد کی نذر کر دیا جائے تو ہمارے لیے دونوں جہانوں میں خسارہ ہے۔ غافلوں اور ظالموں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا۔کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا ، وہ سوچ سکتا تھا۔ اور پھر تمہارے پاس ڈر سنانے والا بھی آ چکا تھا۔ پس اب عذاب کا مزا چکھو۔ سو ظالموں کے لئے کوئی مدد گا نہ ہو گا۔”
اسلام میں وقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ جامع ترمذی میں ابوبَرزَہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” قیامت والے دن بندہ ( اللہ کی بارگاہ ) میں اس وقت تک کھڑا رہے گاکہ جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا۔ 1۔ اس نے اپنی جوانی کن کاموں میں گزاری۔-2 اس نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا ۔ -3اس نے مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ -4 اس نے اپنا بدن کس کام میں کھپائے رکھا۔” مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے۔کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو بیماری سے پہلے صحت کو ،محتاجی سے پہلے تو نگری کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو، اور موت سے پہلے زندگی کو۔ ”
عامر بن قیس ایک زاہد تابعی تھا،ایک شخص نے ان سے کہا ، آ بیٹھ کر باتیں کریں۔انہوں نے جواب میں کہا کہ پھر سورج کو بھی ٹھہرا لو۔” امام ابن جریر طبری ہر روز چودہ صفحات لکھ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی فائدے اور استغفار کے بغیر نہیں گزارا۔ البیرونی کے شوق علم کا یہ عالم تھاکہ حالت مرض میں مرنے سے چند منٹ پیش تر وہ ایک فقیہ سے جو ان کی مزاج پرسی کیلئے آیا تھاعلم الفرائض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے۔ امام الحرمین میں ابو المعالی عبدالملک جو مشہور متکلم امام غزالی کے استاد تھے، فرمایا کرتے تھے کہ میں سونے اور کھانے کا عادی نہیں ہوں،مجھے دن اور رات میں جب نیند آتی ہے سو جاتا ہوں،اور بھوک لگے تو کھا لیتا ہوں،ان کا اوڑھنا بچھونا ، پڑھنا اور پڑھانا ہی تھا۔
امام فخر الدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو کم نہ ہو گی صرف تفسیر کبیر تیس جلدوں میں ہے وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے۔ علامہ شہاب الدین محمود آلو سی مفسر قرآن نے اپنی رات کے اوقات تین حصوں میں تقسیم کر رکھے تھے ،پہلے حصے میں آرام و استراحت کرتے دوسرے میں اللہ تعالیٰ کو یا د کرتے ،تیسرے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح ہم رمضان المبارک میں عبادات و طاعات کا اہتمام کیا کرتے ہیں ، اپنے وقت کو تلاوت و تسبیح ، ذکر واذکار ،درود شریف اور استغفار میں صرف کرتے ہیں ہمیشہ اسی طرح وقت کا صحیح استعمال کیا جائے اور پورا سال عبادات کے اہتما م کو برقرار رکھا جائے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو وقت کی قدر کرنے ، وقت کو قیمتی بناتے ہوئے نیک کاموں میں صرف کرنے اور ذیادہ سے ذیادہ نیکیاں کمانے والا بنائے ۔آمین
تحریر : رانا اعجاز حسین
ای میل:ra03009230033@gmail.com
رابطہ نمبر:0300-9230033