تحریر : وقار انساء
یہ بات تو واضح ہے کہ جب سے بنی نوع انسان کو اللہ رب العزت نے دنیا میں بھیجا تووقت کے مطابق اور اپنی ضروریات کے تحت وہ مختلف تجربات سے گزرتارہا اس طرح معاشرتی طور پر زندگی گزارنے اور معاشی طور پر خود کو مستحکم کرنے کے لئے وہ اپنی عقل سلیم سے کام لیتا رہا –مختلف پیشے بنائے اور اپنی زندگی کو کچھ سہل کیا – جب پیسےکا وجود نہیں تھا تو ایک دوسرے کی ضرورت کی چیزوں کے تبادلے کئے جاتے تھے اپنے دادا دادی نانا نانی سے ان کے وقت کے قصے سننا بہت اچھا لگا کرتا تھا اس کے ساتھ حیران ہو کر رہ جاتے کہ اچھا اس طرح بھی لوگ رہتے تھے-سادہ طرز زندگی تھی ایک کمرے کے گھر میں گھرانے گزر اوقات کرتے تھے –
یہ بات بالکل سچ ہے کہ اس وقت مکان کچے اور لوگ سچے ہوتے تھے پیار محبت خلوص ھمدردی کی کمی نہ ہوتی تھی عید تہوار پر خاندان کا اکٹھا ہونا بچیوں کا جھولے جھولنا گھر کی خواتین کا اپنی بساط بھر کھانے کا انتظام کرنا مرد جب عید کی نماز پڑھ کر آتے تو خاندان برادری سب کے گھروں میں ٹولے کی صورت جاتے مل کر دعا کرتے اور تھوڑا تھوڑا ہر گھرسے کچھ کھا کر ہی جاتے خواتین مل کر خوش گپیاں کرتیں اس طرح تہواروں کا حسن برقرار رہتا کیونکہ اس وقت مشقت بہت تھی تن آسانی نہیں تھی اسی لئے فرصت کے لمحات سے خوب لطف اٹھایا جاتا
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کے لئے سہولتیں پیدا کردیں اس طرح ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے –آگے بڑھنے کی خواہش ملکوں شہروں دیہاتوں اور برادری خاندان سے ہوتی ہوئی گھرانوں تک آپہنچی –یہی وہ صورتحال ہے جس سے دنیا مقتل کا خاکہ پیش کرنے لگی – ضروری نہیں کہ مقتل انسانی لاشوں کا ہی ہو جن کو چھریاں یا گولیاں مار دی گئی ہوں- ہر چند کے دور جدید نے يہ سب اور نت نئی وارداتوں کو متعارف کروایا یہ قتل انسانی رشتوں کا تھا احساسات کا تھا –دلسوز واقعات اور دلگرفتہ حالات کا تھا کسی کے جذبات اور خیالات کا تھا – نفسا نفسی نے سکون کا قتل کر دیا –
زمانے نے تو ترقی کی ہر سہولت میسر آئی لیکن پکے گھروں میں رہنے والواں کے دل بھی پکے ہوگئے وہ وقت بھی اچھا تھا جب صرف ٹی وی اخبار اور دوسری کتابیں اور رسائل تفریح کا سامان بنتے مطالعہ کا شوق ہوتا تھا فراغت کے لمحات کو بہترین انداز میں گزارا جاتا اس وقت مائیں اس بات سے نالاں ہوتیں کہ ہر وقت کتابوں میں سر دئیے ہوتے ہیں آج کا بچہ کتب بینی کا شوق ہی نہیں رکھتا اس کی دلچسپی کے اور سامان ہوتے ہیں ایک گھريلو ماحول کا قتل تب ہوا جب تیزی سے ترقی کرتے زمانے نے ٹی وی کو عام کردیا الگ کمروں کا رواج ہو گیا بچے اپنے کمروں میں ٹی وی دیکھنے لگے گھریلو ماحول میں مل بیٹھنے کا تصور مفقود ہو گیا- گھر کے کام کے بعد خواتین کیا اور سکول ٹائم کے بعد بچے کیا سب اپنےکمرے میں بیٹھنے لگے اسی د ور میں گھر کے مردوں کے پاس نہ تو والدین کے لئے وقت رہا نہ بچوں کے لئے !
بچے بھی اپنی عمر سے جلد بڑے ہونے لگے –یہی لمحہ فکریہ ہے جب بچوں کی معصومیت بھی اسی مقتل میں دفن ہوگئی رہی سہی کسر اب موبائل فون نے نکال دی –لوگوں نے بات چيت کا بھی گلا دبا دیا ایس ایم ایس کے ذریعے ہر وقت کی باتیں فون کالز بھی اب تو کم ہی ہوتی ہیں اکثر گھرانوں میں ماں باپ فون کال کے ذریعے ہی بچوں کو بلا رہے ہوتے ہیں یہ مقتضائے وقت مقتل بن گئی ہیں ساری برائیوں کا سرچشمہ یہ موبائل فون جن کے مختلف فنگشن ایسےہیں کہ بڑے کیا اور بچے کیا ان کی آنکھیں اس کا دیدار کرتے نہ بھرتی ہیں نہ ہی تھکتی ہیں – اتفاق سے بچے اگر کھانے کی میز پر پہنچ بھی گئے تو وہ کسی بات کو دھیان سے نہیں سن رہے ہوتے نہ ان کے لئے آپ کی پریشانی کوئی پریشانی ہے ان کا اوڑھنا بچھونا فون بن گیا –والدین بات کر رہے ہوتے ہین اور بچے میسج کرنے میں لگے ہوتے ہیں –یہاں تک کہ ایک جگہ بیٹھ کر بھی منہ سے بات کرنے کے بجائے فون کی زبان استعمال کر رہے ہوتے ہیں آج کا بچہ آنکھ کھولتا ہی ہے تو ان چیزوں کو دیکھتا ہے اسی لئے ایک دوسال کے بچے بھی باآسانی کارٹون اور گیمز لگا لیتے ہیں
دوسرے کھلونون سے انہین کوئی سروکار نہیں وہ تو موبائل فون کے ہی دلدادہ ہیں حقیقت ہے کہ گھریلو ماحول کا قتل بھی بے جا لاڈ پیار اور چیزوں کے بے جا استعمال سے ہوا-جس وقت کو مائیں بچوں کی تربیت پر صرف کرتی تھیں وہ یہی فارغ اوقات تھے جن میں اب سب کی تربیت فون اورٹیبلیٹ کر رہے ہیں آج انسان کے پاس سب کچھ ہے لیکن اس نےبہت کچھ کھو بھی دیا ہے اس بات سے بھی انحراف نہیں کہ ان چیزوں کے مثبت استعمال کے فائدے بھی بہت ہیں –پیغامات کی ترسیل بات چیت حالات حاضرہ سے واقفیت ان سے ہی ممکن ہیں جہاں ان چیزوں نے فاصلے گھٹا دئیے ہیں کہ آپ کہیں بھی ہیں آپ ایک دوسرے سے باخبر ہیں وہاں ان کے غلط استعمال نے دوریاں اور فاصلے بڑھا بھی دئیے ہیں سوچنا ھمین ہے کہ یہ مقتضائے وقت ہیں ان کو مقتل نہ بننے دیں
تحریر: وقار انساء