پاکستانی معیشت کی بحالی کے لئے سب سے اہم ترین چیز ’’انفاق‘‘ ہے، انفاق کا لفظ ’’ینفق‘‘ سے مشتق ہے، ینفق نیفے کو کہتے ہیں، جس میں چیز ایک طرف ڈالی جائے تو دوسری طرف سے نکل آتی ہے، یعنی انفاق کا مطلب سرمائےکی گردش ہے۔ اِسی گردش کو بڑھانے کے لئے حکومت ایمنسٹی اسکیم لائی ہے۔ اِس اسکیم کی اچھائیوں اور برائیوں کو سمجھنے کے لئے کچھ عجیب و غریب مشورے بڑے اہم ہیں۔ دراصل کل مجھے ڈاکٹر خورشید احمد (سی بی ای) جو ’’ریشنل ایکولٹی برطانیہ‘‘ کے سابق وائس چیئرمین بھی ہیں، اپنے ساتھ ایک برطانوی تھنک ٹینک کے اجلاس میں لے گئے تھے۔ وہاں پر موجود لوگوں نے مجھ سے پاکستان کے متعلق کئی سوالات کیے۔ آخر میں میں نے بھی پوچھ لیا کہ ’’آپ کےخیال میں پاکستان کی معیشت کیسے بہتر ہو سکتی ہے‘‘۔ اُن کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستان کا بنیادی مسئلہ کرپشن ہے، جیسے ہی کرپشن کا جن بوتل میں بند ہوگا معیشت بہتری کی طرف رواں دواں ہوجائے گی، کرپشن کے خاتمے کے لئے پاکستان کو ایک نئی وزارت کی ضرورت ہے۔ جس کا کام لوگوں کے اثاثوں اور آمدن کا حساب رکھنا ہو۔ جو ہر فیملی کی مالی حیثیت کی مکمل جانچ پڑتال کرے، اُس کی ایک فائل ہو جس میں اُس کے اثاثے اور آمدنی کے ذرائع درج ہوں۔ جو لوگ اپنے اثاثوں کے ذرائع آمدنی ثابت نہ کرسکیں، اُن کے اثاثے بھی قومیا لئے جائیں اور بلیک منی رکھنے کے جرم کی سزا بھی دی جائے۔ اِس کام کا آغاز سرکاری ملازموں سے کیا جائے، سرکاری افسروں، جنرلوں، ججوں اور سیاست دانوں کے اثاثے چیک کئے جائیں، اُس میں یہ بھی دیکھا جائے کہ اُس آمدنی پر ماضی میں ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں۔ جتنے لوگوں کے بیرون ملک اثاثے ہیں اگر وہ اُس کے ذرائع نہیں بتا سکتے یعنی منی لانڈرنگ کر کے سرمایہ باہر منتقل کیا ہے اور ٹیکس نہیں ادا کیا، اُنہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اگر نئی وزارت قائم کرنا مشکل ہے تو وزارت داخلہ کے تحت ایک نیا محکمہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ ایف آئی اے یا نیب کو بھی اتنی وسعت دی جا سکتی ہے۔ اِس سے فوری طور پر دو فائدے ہونگے۔ پہلا فائدہ تو یہ ہو گا کہ پورے ملک میں جتنے بزنسز ہیں وہ سب ریکارڈ پر آجائیں گے۔ اُن کی تفصیل حکومت کے پاس آجائےگی، ٹیکس وصول کرنا آسان ہوجائے گا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ تقریباً پچاس فیصد لوگوں کے اثاثوں اور آمدن میں تفاوت کا امکان جس سے ایک بڑی رقم حکومت کو حاصل ہوگی یعنی تمام بلیک منی یک دم حکومت کے پاس آتے ہی وائٹ منی میں تبدیل ہوجائے گی۔
اُس تھنک ٹینک کے ایک ممبر نے اِس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستان کے سوات اور ریکوڈک میں کم ازکم دو ہزار بلین ڈالر کا سونا موجود ہے، پاکستان اُس طرف کوئی توجہ کیوں نہیں دیتا۔ اُنہوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا آسان سا حل بھی بتایا کہ حکومت صرف کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کرے۔ اُن پر سبسڈی دے۔ اُس کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں اُن پر ٹیکس ڈبل کردے۔ سگریٹ پر ٹیکس برطانیہ کی طرح ایک ہزار گنا کردے۔ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بہتر کر کے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں پر ٹیکس کی شرح کئی گنا کردے۔ جرائم پر سزائوں کے ساتھ جرمانے کی رقم میں سو گنا اضافہ کرے بلکہ کئی جرائم کی سزائیں ختم کر کے اتنا زیادہ جرمانہ رکھ دے جو قابلِ برداشت نہ ہو۔ پورے ملک کی سڑکوں پر کیمرے نصب کر دے ایک تو ٹریفک نظام درست ہوجائے گا، دوسرا ہر ماہ اربوں روپے جرمانے سے جمع ہونگے۔ بائیس گریڈ تک تمام آفیسرز سے سرکاری گاڑیاں واپس لے لے، آفیسرز یا تو اپنی گاڑیاں استعمال کریں یا لوکل ٹرانسپورٹ۔ تمام افسروں سے سرکاری گھر واپس لے لئے جائیں یا تو وہ اپنے گھروں میں رہیں یا کرائے کے گھروں میں۔ برطانیہ میں حکومت نہ تو کسی سرکاری افسر کو گھر فراہم کرتی ہے اور نہ گاڑی۔
بات تھی ’’ٹیکس ایمنسٹی اسکیم‘‘ کی۔ وفاقی کابینہ نے جس کی منظوری دی ہے۔ بظاہر یہ تمام تجاویز اِس اسکیم کے متضاد ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔ مشیرِ خزانہ نے اِس کے متعلق واضح طور پر کہا ہے کہ جو افراد عوامی عہدہ رکھتے ہیں وہ اِس اسکیم سے استفادہ نہیں کر سکتے بلکہ وہ لوگ بھی جو عوامی عہدے رکھنے والوں کے زیر کفالت ہیں۔ یہ اسکیم بے نامی جائیدادوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے لئے لائی گئی ہے۔ بلیک منی رکھنے والوں کو آخری موقع دیا گیا ہے۔ بقول مشیر خزانہ جو لوگ اِس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اُن کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی۔ ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے یہ بھی کہا ہے کہ بے نامی جائیداد پر کم سے کم سزا پانچ سال ہو گی۔ (ن)لیگ اپنے دورِ اقتدار میں پانچ مرتبہ یہ ایمنسٹی اسکیمیں لا چکی ہے، پاکستان میں پہلی ایمنسٹی اسکیم صدر ایوب نے متعارف کرائی تھی مگر ان اسکیموں سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوسکا تھا۔ صدر مشرف کی ایمنسٹی اسکیم سے صرف ایک سو پندرہ ارب وائٹ ہوئے تھے اور شاہد خاقان عباسی کی ایمنسٹی اسکیم سے ایک سو چوبیس ارب، جو پاکستان جیسی بڑی معیشت کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں، اِن اسکیموں کی ناکامی کا اصل سبب یہ ہے کہ جب اسکیم کا دیا ہوا وقت ختم ہوتا ہے تو اُس کے بعد بھی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ اب بھی لوگوں کا یہی خیال ہے۔ اگر موجودہ حکومت نے اس اسکیم کے بعد تمام بلیک منی رکھنے والوں کے خلاف سچ مچ کارروائی کی تو شاید پھر کوئی بہتری ممکن ہو، ورنہ نہیں۔ ویسے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ یہ جو سو ڈیڑھ سو ارب روپے اس اسکیم سے وائٹ ہونا ہیں اُس کی اتنی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ اس کے بجائے کالے دھن کے خلاف ایمرجنسی کا نفاذ کیوں نہیں کیا گیا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ کچھ مخصوص لوگوں کو بچانے کے لئے لائی گئی ہے کیونکہ حکومت کالے دھن کے لئے کسی بڑی کارروائی کا پروگرام ترتیب دے چکی ہے اور کچھ لوگ کچھ لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ مسئلے کا بس وہی ایک ہی حل ہے ’’انفاق‘‘۔ سرمایہ کی مکمل اور مسلسل گردش۔