یہ بظاہر ایک معمولی واقعہ تھا لیکن یہ معمولی واقعہ ہمارے قومی رویوں اور ہماری ریاستی سوچ کی پوری عکاسی کرتا ہے‘ کراچی شاہراہ فیصل پر کراؤن پلازہ ہوٹل کے قریب پولیس کی دو گاڑیاں سرکاری کار کو پروٹوکول دے رہی تھیں‘ پولیس وینز گاڑی کے لیے راستہ بھی صاف کر رہی تھیں اور اشارے بھی توڑ رہی تھیں‘کراچی کے ایک عام شہری سے یہ برداشت نہ ہو سکا چنانچہ اس نے اپنی کار میں بیٹھے بیٹھے موبائل سے پروٹوکول کی ویڈیو بنانا شروع کر دی‘ پولیس اہلکاروں نے گاڑی روکی‘ایک اہلکار اس کے قریب آیا‘ اسے ماں بہن کی گالیاں دیں‘ تھپڑ مارا اور کہا ’’فلم کیوں بنا رہے ہو‘ کیا گاڑی میں تمہارا باپ جا رہا ہے‘‘ وہ شہری ڈھیٹ تھا‘ وہ بے عزتی کرانے اور تھپڑ کھانے کے باوجود ڈٹا رہا‘ وہ فلم بناتا رہا‘ پولیس اہلکار اپنی ’’رٹ‘‘ کی یہ توہین برداشت نہ کر سکے اور اسے سڑک پر پیٹنا شروع کر دیا‘ وہ صاحب پٹتے رہے اور فلم بناتے رہے‘ یہ ویڈیو بعد ازاں انٹرنیٹ پر چڑھی اور وائرل ہوگئی‘ آئی جی سندھ نے نوٹس لیا اور پولیس اہلکار معطل کر دیے لیکن کیا پولیس کے اہلکاروں کی معطلی سے توہین کا یہ رویہ بھی معطل ہو جائے گا؟ جی نہیں! یہ رویہ ایک سو ستر سال سے اس خطے میں چل رہا ہے اور یہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
انگریز نے ہندوستان میں پولیس‘ انتظامیہ اور عدلیہ یہ تینوں ادارے مقامی لوگوں کی توہین‘ ان کی عزت نفس کچلنے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال کرنے کے لیے بنائے تھے‘ انگریز ان تینوں محکموں میں مقامی لوگ بھرتی کرتا تھا‘ انھیں سوٹ بوٹ اور یونیفارم پہناتا تھا‘ انھیں چھری کانٹے کے ساتھ کھانا کھانے کا طریقہ بتاتا تھا‘ ان کے ہاتھ میں ڈنڈا‘ رائفل اور انصاف کا ہتھوڑا دیتا تھا اور انھیں کہتا تھا ’’تم اب مقامی لوگوں کے حکمران ہو‘ تم ان کے ساتھ وہ سلوک کرو جو حکمران کیڑے مکوڑوں کے ساتھ کرتے ہیں‘‘ چنانچہ یہ لوگ عام لوگوں پر پل پڑتے تھے‘ انگریز نے فوج‘ پولیس‘ انتظامیہ اور عدالتی اہلکاروں کو آواز میں تحکم‘ چہرے پر سختی اور عام لوگوں کو ’’اوئے‘‘ سے مخاطب کرنے کی ٹریننگ بھی دی‘ یہ ٹریننگ اور توہین کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے چنانچہ آپ اس ملک میں جوں جوں عام انسان ہوتے جاتے ہیں آپ کی بے عزتی‘ توہین اور تحقیر لازم ہوتی جاتی ہے‘ یہ ملک کہنے کو تو پاکستانیوں کا ملک ہے لیکن اس پاکستان میں پاکستانی روزانہ بے عزتی کے جس عمل سے گزرتے ہیں ملک کا مراعات یافتہ طبقہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا‘ ملک میں جہاں بھی سرکار ہو گی یہ عام شہری کو ذلیل ضرور کرے گی۔
ہمارے وزیر داخلہ احسن اقبال کو دو اکتوبر کے دن احتساب عدالت کا گیٹ بند ملا‘ رینجرز کے اہلکاروں نے وزیر داخلہ کی بات سننے سے انکار کر دیا‘ یہ پندرہ منٹ عدالت کے گیٹ پر کھڑے رہے لیکن گیٹ نہ کھلا‘ وفاقی وزراء کو ایک دن عدالت کے اندر جانے کی اجازت نہیں ملی‘آپ دیکھ لیجیے یہ لوگ کس قدر تڑپے‘ یہ لوگ توہین کی کتنی بھاری گٹھڑیاں اٹھا کر واپس گئے لیکن عوام کے ساتھ یہ سلوک روزانہ ہوتا ہے اور یہ پچھلے ستر سال سے جاری ہے‘ احسن اقبال کسی دن عام کپڑے پہن کر اسلام آباد ائیر پورٹ چلے جائیں‘ یہ گیٹ پر کھڑے اے ایس ایف اہلکاروں سے لے کر کاؤنٹر تک جن مراحل سے گزریں گے اور یہ جب پاکستان کے اندر پاکستانی اہلکاروں کے ہاتھوں ذلیل ہوں گے تو یہ اس وقت جانیں گے ہمارے ملک میں عام آدمی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ یہ اس دن اصل پاکستان سے متعارف ہوں گے‘ آپ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا تڑپنا بھی ملاحظہ کیجیے‘ یہ جے آئی ٹی پر بھی چیختے رہے۔
یہ عدالت کے رویئے پر بھی شاکی ہوئے‘ یہ فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کر رہے اور یہ اب احتساب عدالت کو بھی اپنے خلاف خصوصی عدالت قرار دے رہے ہیں‘یہ مسلسل چیخ رہے ہیں‘ یہ کیوں چیخ رہے ہیں؟ یہ اس لیے چیخ رہے ہیں کہ یہ پہلی بار ملک کے اصلی نظام کا مشاہدہ کر رہے ہیں‘ یہ پہلی بار اپنا ہاتھ انصاف کی بے رحم چکی میں پھنستا ہوا دیکھ رہے ہیں جب کہ یہ سلوک عام آدمی کے ساتھ روز اس ملک میں ہوتا ہے‘ ہمارے لوگوں کی تین تین نسلیں اپنی بے گناہی ثابت کرتے کرتے قبروں تک پہنچ جاتی ہیں مگر انھیں انصاف نہیں ملتا‘ آپ نے بدقسمتی سے اگر اس ملک میں ایک بار کسی عدالت کی دہلیز پار کر لی تو آپ کی باقی زندگی پھر عدالت کے کو ریڈورز میں ہی گزرے گی‘ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں بیگم نصرت بھٹو اپنی طبعی عمر پوری کر کے انتقال کر جاتی ہیں لیکن ان کے مقدمات کی فائلیں زندہ رہتی ہیں اور جس میں بے نظیر بھٹو کو شہید ہوئے دس سال ہو گئے ہیں لیکن ان کے کیس کا فیصلہ نہیں ہوا‘ آپ اس سے عام آدمی کے ساتھ ہونے والے سلوک اور انصاف کا اندازہ لگا لیجیے۔
میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو نااہل قرار دے دیا تھا‘ یہ نااہلی کے ساتھ ہی پارٹی صدارت سے بھی فارغ ہو گئے تھے‘ میاں صاحب وزارت عظمیٰ کے ساتھ پارٹی کی صدارت سے سبکدوش نہیں ہونا چاہتے تھے چنانچہ حکومت نے بڑی عجلت میں الیکٹورل ریفارمز بل 2017ء تیار کیا ‘ 22 اگست کو قومی اسمبلی سے منظور کرایا اوریہ بل سینیٹ میں پہنچا دیا‘ سینیٹر اعتزاز احسن نے اس میں ’’نااہلی کے بعد پارٹی کی صدارت سے بھی نااہلی‘‘ کی ترمیم شامل کرانے کی کوشش کی‘ حکومت نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو مینج کر لیا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز اچانک ایوان سے غائب ہو گئے‘ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز بھی ’’مصروف‘‘ ہو گئے‘ مشاہد حسین سید بھی غچا دے گئے اور ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق نے اپنا ووٹ حکومت کو دے دیا یوں چوہدری اعتزاز احسن کی ترمیم نامنظور ہو گئی‘ حکومت جیت گئی‘ حکومت نے پیر دو اکتوبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلالیا‘ اپوزیشن بل کی کاپیاں پھاڑتی رہ گئی اور حکومت نے قومی اسمبلی سے بل منظور کرا لیا‘ صدر نے رات جاگ کر بل پر دستخط کیے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے اگلے دن میاں نواز شریف کو اپنا صدر منتخب کر لیا‘ یہ اچھی بات ہے‘ آئین پر اسی رفتار سے عمل ہونا چاہیے لیکن کاش میاں نواز شریف نے آئین کے اس آرٹیکل 25 پر بھی اسی اسپرٹ سے عمل کیا ہوتا جو ملک کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔
یہ آرٹیکل اگر 1975ء سے نافذ ہو چکا ہوتا تو آج کراچی کی سڑک پر غیر قانونی پروٹوکول کی فلم بنانے پر عام شہری پر تشدد ہوتا‘ وزراء احتساب عدالت کے باہر کھڑے ہوتے اور نہ ہی رینجرز کا سپاہی گیٹ بند کرتا‘ کاش آئین کے اس آرٹیکل 25 اے پر بھی اسی اسپرٹ سے عمل ہوا ہوتا جو ریاست کو پابند کرتا ہے حکومت پانچ سال سے 16 سال تک کے ہر بچے کو مفت تعلیم دے گی‘ کاش میاں صاحب نے آئین کے اس آرٹیکل 31 پر بھی اسی اسپرٹ سے عمل کیا ہوتا حکومت نے جس کے ذریعے ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنا تھا اور کاش میاں صاحب نے اسی اسپرٹ سے آرٹیکل 32 کے تحت ملک میں بلدیاتی ادارے بھی قائم کیے ہوتے‘ آرٹیکل 37 کے تحت معاشرتی انصاف بھی قائم کیا ہوتا‘ معاشرتی برائیاں بھی ختم کی ہوتیں‘ عوام کو سستا اور فوری انصاف بھی فراہم کیا ہوتا اور آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت عوام کو معاشی مشکلات سے بھی رہائی دلائی ہوتی تو آج میاں نواز شریف‘ ان کا خاندان اور ان کے وزراء انصاف کے لیے سڑکوں پر مارے مارے نہ پھر رہے ہوتے‘ یہ مکافات عمل ہے‘ یہ قدرت کی طرف سے ٹٹ فار ٹیٹ ہے‘ یہ حالات کی وہ بری صدائیں ہیں جو لوٹ کر میاں نواز شریف اور حکومت تک پہنچ رہی ہیں۔
کاش آپ آج ہی سنبھل جائیں‘ آپ آج ہی توبہ کر لیں‘ آپ آج ہی اپنی اصلاح کا بیڑہ اٹھا لیں‘ آپ آج ہی اس ملک میں مساوات قائم کر دیں‘ آپ آج ہی یہ فیصلہ کر لیں ملک میں 2018ء سے آئین کا آرٹیکل 25 من وعن نافذ ہو جائے گا‘ ملک کا ہر شہری برابر ہو گا‘ صدر سے لے کر پولیس کانسٹیبل تک کوئی شخص کسی شخص کو ہاتھ لگائے گا اور نہ ہی گالی دے گا اور اگر کسی نے یہ کیا تو وہ نوکری سے بھی جائے گا‘ بھاری جرمانہ بھی بھگتے گا اور وہ مقدموں کا سامنا بھی کرے گا‘ ہمارے سابق آقا انگریز نے سو سال پہلے فیصلہ کیا تھا برطانیہ کا کوئی سرکاری ملازم اپنے باس کو سر نہیں کہے گا لیکن یہ عام شہری سے جب بھی مخاطب ہو گا یہ اسے سر کہے گا‘ یہ اسے سلام بھی کرے گا۔
حکومت آج یہ فیصلہ کر لے ملک کا کوئی سرکاری افسر خواہ وہ پولیس اہلکار ہو‘ رینجر ہو‘ فوجی ہو‘ اے ایس ایف کا ملازم ہو‘ عدالتی اہلکار ہو یا پھر کسی دوسرے سرکاری ادارے سے تعلق رکھتا ہو وہ عام شہری کو سر کہہ کر مخاطب ہو گا اور وہ عام شہری خواہ اس ملک کا بھکاری ہی کیوں نہ ہو اور حکومت یہ بھی فیصلہ کر لے ہمارے ملک میں توہین‘ انا شکنی اور عزت نفس سے چھیڑ چھاڑ سنگین ترین جرم ہو گا اور جو شخص یہ جرم کرے گا ریاست اسے نہیں چھوڑے گی‘ آپ دس سال میں اس ملک کو مہذب دیکھ لیں گے‘ آپ یقین کریں پاکستانیوں کی پاکستان کے باہر اتنی بے عزتی نہیں ہوتی جتنی بے عزتی یہ اپنے ملک میں اپنے ٹیکس پر پلنے والے اپنے لوگوں کے ہاتھوں اٹھاتے ہیں‘بے عزتی کا یہ ڈومور اب بند ہو جانا چاہیے‘ یہ کافی بھی اب کافی ہو جانا چاہیے‘ آپ ملک میں عام آدمی کو عزت دے دیں آپ کو بھی عزت مل جائے گی‘ آپ کے لیے بھی کوئی گیٹ بند نہیں ہوگا اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو پولیس سڑکوں پر عام لوگوں کو ٹھڈے مارے گی اور آپ رینجرز کے ہاتھوں بے عزت ہوں گے‘ ٹٹ فارٹیٹ ہوتا رہے گا۔