تحریر: شہزادحسین بھٹی
شدید بارش میں جونہی میں نے اپنی گاڑی کا رخ دائیں جانب گلی میں موڑا اور چند گز ہی پار کیے تھے کہ دائیں جانب وہ ایک دکان کے دروازے میں کھڑا ہمیں پہچاننے والی نظروں سے گھورتے ہوئے گویا ہوا کہ آج کہاں اس طرف ا نکلے؟ میرے ہمراہ بیٹھے میرے دوست اقبال زرقاش نے مجھے گاڑی روکنے کو کہا۔ ہم دونوں گاڑی سے اترے تو اس نے بڑے پرتپاک انداز میں خوش آمدید کہا اور کہنے لگا کہ لالہ اندر آو ۔ جونہی ہم دکان نما کمرے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں نیم اندھیرے میں ڈوبے کمرے کی چھت ٹپک رہی تھی اور میز پر پڑی پلاسٹک شیٹ اسے گیلا ہونے سے بچا رہی تھی۔ جبکہ سامنے ہی ایک دیوار پر صحافیوں، شاعر، گلوکاروں اور اداکاروں کے ساتھ اسکی تصاویر اسکا منہ چڑا رہی تھیں۔ جبکہ اسکی دکان میں سامان نام کی کوئی چیز دیکھائی نہ دے رہی تھی۔ استسفار پر اس نے بتایا کہ کھانے کو نہیں تو دکان میں کیا رکھوں۔
صلاح الدین سادہ طبعیت، ملنسار اور کھلے دل کا آدمی تھا۔ ایک وقت تھا جب اس پر لکشمی کی دیوی مہربان تھی وہ ایک وقت میں تین تین موبل آئل کی دکانوں کا مالک تھا۔وہ ان دنوں این این آئی نیوز ایجنسی کا نامہ نگار بھی تھا اور خبروںکے حصول کے لیے جنون کی حد تک شوق رکھتا تھا۔ اسی شوق کی تکمیل کی خاطر بعدازاں وہ ایک ہفت روزہ اخبار مائیکروسکرین کا مالک بھی بن گیا۔اورکافی عرصہ اخبار باقائدگی سے نکالتا رہا ۔ کہتے ہیں “جب آپ عروج پر ہوتے ہیں تو آپ کے دوستوں کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کون ہیں اور جب آپ زوال پر ہوتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ دوست کون ہیں” ۔ یہی سب کچھ اس کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ دوستوں خصوصاً صحافیوں ، شاعروں ، گلوکاروں او ر اداکاروں پر پیسہ پانی کی طرح بہاتا رہا قطعہ نظر اسکے کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔
ہم نے اسے متعدد بار تاکید فرمائی کہ یار آپ حاتم طائی مت بنو اور اپنی چادر کے مطابق اپنے پاوں پھیلاو لیکن ایک کہاوت کہ” عقل مند کو مشورے کی ضرورت نہیں ہوتی اور بے وقوف اس پر عمل نہیں کرتا “کے مصداق صلاح الدین نے بھی یہی کچھ کیا۔ وہ کھلے دل سے خرچ کرتا۔ انٹرویو، ریکارڈنگ، پرچے کی چھپائی ، دفتری اخراجات اور آفس میں آنے والے تمام فنکاروں، صحافیوں اور اداکاروں کے نخرے اُٹھاتا۔ ہمارے ایک استاد کا قول تھا کی اگر کسی سے دُشمنی کرنی ہو تو اسے اخبار نکالنے کا مشورہ دے دو، جلد ہی مفلس ہو جائے گا۔یہی سب کچھ اس کے ساتھ بھی ہوا، لاکھوں سے کوڑیوں کا سفر طے کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
وقت کا دھارا گزرتا رہا، سالوں پر سال گزرتے گئے۔بیس سالوں کی رفاقت یوں محسوس ہوئی جیسے کل کی ہی بات ہو۔ان بیس سالوں میں شہر میں بہت کچھ بدل گیا ۔ جو فوٹو گرافر تھے وہ سینئر کیمرہ مین بن گئے ،جو اخبار فروش تھے وہ صحافی بن گئے۔ سپاہی اے ایس آئی اور اے ایس آئی انسپکٹر بن گئے، مجسٹریٹ ڈی سی او بن گئے لیکن اگرکوئی کچھ نہ بنا تو وہ صلاح الدین تھا جو اپنی ساری شان و شوکت کھو بیٹھا تھا۔ وہ ہیرو سے زیرو ہو چکا تھا کیونکہ پیٹ انسان کے سارے اوسان خطا کر دیتا ہے۔ سوچیں انسان کو بوڑھا کر دیتی ہیں اور یہی سب کچھ اس غریب کے ساتھ بھی ہو چکا تھا۔ جو کل تک صلاح الدین صاحب کی پکاریں لگاتے تھے اور اسکے مشورے کے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھاتے تھے، آج اس سے یوں کنارہ کش ہوگئے کہ جیسے ان کے درمیاں کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔شاید آج وہ اس ڈرسے اس کا حال بھی نہیں پوچھتے کہ کہیں وہ ان سے چند ٹکے اُدھار ہی نہ مانگ لے۔کیونکہ ان ضمیر فروشوں کو تو ایک کپ چائے اور سگریٹ ہی چاہیے ہوتے تھے جو اب شاید یہ غریب انہیں مہیا نہ کرسکے۔
رسماً حال احوال پوچھنے کے دوران صلاح الدین کی آنکھوں کی سرُخی اور چہرے پر درد عیاں تھا ۔ جب اس سے یہ استسفار کیا کہ کام کیسا جا رہا ہے ۔ صحافتی حلقوں میں سرگرمی نہیں دکھارہے تواسکے چہرے کے تاثرات ایسے دیکھائی دے رہے تھے کہ جیسے امیدوں اور آرزوں کا سمند رحسرت ویاس بن کر ضبط کے بندھن توڑتے ہوئے اسکی آنکھوں سے بارش کے قطروں کی مانند برس پڑیں گئے۔ گویا ہوا کہ اپنی غلطیوں کی سزا بھگت رہا ہوں ۔آپ لوگوں کے سمجھانے کے باوجود میںنمانا خوشا مدیوں اور مفاد پرست دوست نما آستین کے سانپوں پر اندھا دھند خرچ کرتا رہا اور وہ اپنے مفادات اُٹھاتے رہے اوراب جب میرے حالات مجھے کاٹنے لگے تو وہ مجھ سے ایسے الگ ہو گئے جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔ آج حالت یہ ہے کہ کئی دنوں سے کام نہیں ہے ۔ کل رات کچھ روپے ضرورت پڑگئے تو ایک ہمسائے سے سو روپے لے کر کام چلایا۔
میں صلاح الدین کی روداد سنتے ہوئے جیسے سکتے میں آگیا کہ آج بارش ہے اور اسکے گھر کھانے کو کچھ نہیں ہے تو ہم جیسوں سے کیا خدا یہ سوال نہیں کرے گا کہ جب تم لوگوں پر میرا فضل تھا تو تم نے گرتے ہووں کو کیوں نہ تھاما ؟ کیا یہ اُن تمام دوستوں جو بوقت طعام اسکے ہاں وارد ہو جاتے تھے، چائے اور سگریٹ مال مفت دل بے رحم سمجھ کر اُڑاتے تھے، فرض نہیں ہے کہ آج اگر ان کا ایک دوست صبر و استقامت کے امتحان میں ہے تو وہ اسکے لیے اپنے حصے کا کچھ فرض ادا کر جائیں؟ اسے اپنے پاوں پر دوبارہ کھڑا کرنے میں اس کا سہارا بن جائیں؟ یہی سوچتے ہوئے گاڑی میں بیٹھتے ہی میںنے اپنا پرس نکالا اور کچھ روپے اسکی طر ف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ کچھ رکھو میں مزید بھی تمہارے لیے کچھ کرتا ہوں تو اسکی آنکھوں میںجیسے آنسووں کا سیلاب اُمڈ آیا اور کہنے لگا ! یہ کیا لالہ ؟ میںنے کہا کوئی مسئلہ نہیں رکھو ۔انکار کرتے ہوئے کہنے لگا یہ اُدھار ہو گا ۔ میںنے کہا ہاں ہاں ٹھیک ہے ہوئے تو دے دینا ۔ میں نے لینے کے لیے نہیں دیئے بحیثت دوست ہمارا بھی تم پر کچھ حق ہے۔
تحریر: شہزادحسین بھٹی