کانفرنسوں کے انتظامات کے لیے سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری ، چیف جسٹس (ر) منظور گیلانی ، احمر بلال صوفی ، اسد اللہ بھٹو ایڈووکیٹ پر مشتمل کمیٹی قائم کر دی گئی ہے ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ مقدس ہستیوں کی توہین کو جرم قرار دینے سے متعلق ملکی اور عالمی سطح پر قوانین بنانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ، جس طرح ممالک کے آپس میں معاہدے ہوتے ہیں اسطرح مقدس ہستیوں کی شان کا تحفظ کرنے کے لیے بھی معاہدے کیے جائیں ورنہ دنیا میں ہر طرف فساد ہی فساد ہو گا ۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ختم نبوتﷺ قانون کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں 295سی پر اثر انداز ہونے کے لیے سینیٹ میں بھی ایک بل پیش ہوا ہے، کسی قانون میں مدعی کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی ،سینیٹ ایسا کوئی قانون پاس نہ کرے جس سے 295سی پر اثر پڑے، راجہ ظفر الحق کی کمیٹی کی رپورٹ اور جسٹس شوکت صدیقی کے فیصلے پر من وعن عمل کیا جائے۔ کانفرنس سے سینیٹر سراج الحق کے علاوہ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری، جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، ایڈووکیٹ اسد اللہ بھٹو
اورمایہ ناز بین الاقوامی ماہر قانون احمر بلال صوفی نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس میں سابق امیرجماعت اسلامی آزاد کشمیرو ممبرقانون ساز اسمبلی عبدالرشید ترابی، سابق چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر منظور گیلانی، ممبر قومی اسمبلی مولانا اکبر چترالی، اشتیاق احمد ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ، سید انور شاہ ، شیخ احسن الدین ، ملک محمد عامر، توفیق آصف، جاوید سلیم شورش،ضیاءالدین انصاری ، خان افضل خان ایڈووکیٹ و دیگر نے بھی خطاب کیا ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ کانفرنس میں شرکت اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہوں ، رسولﷺ کی محبت اور شان رسالتﷺ کے تحفظ کے لیے ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں، کانفرنس میں صرف شعبہ قانون کے لوگوں کو مدعو کیا گیا ہے تا کہ وہ اس معاملے پر قوم کی رہنمائی کریں، پاکستان کو بے شمار مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے مگر سب سے بڑا مسئلہ نبیﷺ کی شان میں کی جانیوالی توہین کا ہے ،جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور یہ ہمارے غیرت ایمان کے لیے بھی چیلنج ہے، اگر مسلمان امت رسولﷺ کی شان حفاظت کے لیے کھڑی نہیں ہو سکتیں تو اس کو مر جانا چاہیے کیونکہ اس کے بعد امت کی کوئی ضرورت نہیں ،
ادنیٰ سے ادنیٰ سے مسلمان بھی رسولﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ جب بھی ایسے اقدام کا اعلان کیا جاتا ہے تو مسلمان احتجاج کرتے ہیں جس پر یہ عارضی طو رپر ملتوی ہو جاتا ہے مگر وہ اس کو ختم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ہالینڈ کے سفیر سے ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے ملاقات کی اور ان کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا ،پُرامن دنیا کے لیے ضروری ہے کہ تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں کی عزت کی جائے جس پر انہوں نے ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کیا ،پاکستان کی سطح پر قانونی ماہرین کو اکٹھا کر کے پہلے ملک کے اندر اور پھر عالمی سطح پر مقدس ہستیوں کی توہین کو جرم قرار دینے کی تحریک اٹھائیں گے، ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح ممالک کے درمیان معاہدے ہوتے ہیں اس طرح مقدس ہستیوں کے حوالے سے بھی عالمی سطح پر معاہدہ کیا جائے ،یہ اجلاس اسکے لیے ایک قطرہ ہے اگر ہم اخلاص سے جدوجہد جاری رکھیں گے تو یہ سمندر بن جائے گا اور ہم کامیاب ہوں گے، توہین مذہب کے حوالے سے ہندوستان میں سب سے پہلے محمد علی جوہر نے تحریک شروع کی اور
اس وقت متحدہ ہندوستان کے آئین میں توہین رسالتﷺ کو جرم قرار دیا گیا ،پاکستان بننے کے بعد آئین کے اندر 295سی کا اضافہ کیا گیا مگر آج بین الاقوامی برادری 295سی کو ختم کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے، مسلمان ہر قسم کی قربانی دے سکتے ہیں مگر شان رسالتﷺ کے قانون میں کسی صورت تبدیلی برداشت نہیں کر سکتے ، قادیانی فتنے کو بھی آئین پاکستان نے واضح کیا مگر آج تک آئین پاکستان کو بھی قادیانیوں نے قبول نہیں کیا اور اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مقدس ہستیوں کی توہین کا قانون بنایا جائے تا کہ کوئی جرآت نہ کر سکے کہ وہ مقدس ہستیوں کی توہین کریں۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ جماعت اسلامی نے جیورسٹ کانفرنس کر کے اچھا اقدام اٹھایا ہے، ناموس رسالتﷺ کا تحفظ اور گستاخی کرنیوالوں کا سدباب کیا جائے جسکے لیے ضروری ہے کہ ایک باقاعدہ فورم بنایا جائے جو اس مسئلے کو دیکھے دیگر مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے اسطرح ہم بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ شان رسالتﷺ میں
کوئی گستاخی کرے ،دنیا میں ترقی رسول ﷺ کی تعلیمات کی وجہ سے ہوئی ہے ،295-Cکو ختم کرنے کے بارے میں مغرب ہمیشہ ہم پر دباؤ ڈالتا ہے ،یہ لوگ اسلام کے اصولوں اور تعلیمات کے خلاف ہیں، ہمیں ان پر واضح کرنا ہو گا کہ ہم خاتم النبینﷺ کی ذات کے متعلق کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے، ختم نبوت ﷺ کا قانون ہمارے دستور کا حصہ ہے، اسکے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا ،ختم نبوت ﷺ کا قانون پاس کرنیوالی اسمبلی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بتا دیا ہے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟ مسلمان صرف وہی ہے جو رسولﷺ کے آخری نبی ہونے پر یقین رکھے گا۔ انہوں نے کہا کہ قادیانیوں کے حوالے سے جسٹس شوکت صدیقی نے جو فیصلہ دیا ہے اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے ،ہمارے لیے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ 10ہزار سرکاری ملازمین نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آپ کو قادیانی لکھا ہے جو مسلمان بن کر نوکریاں کرتے رہے، راجہ ظفر الحق کی رپورٹ میں جن کے نام ہے انکے خلاف کاروائی ہونی چاہیے ،295-C میں تبدیلی کے لیے ایک بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا ہے جسکو متعلقہ قائمہ کمیٹی میں بھیج دیا گیا ہے جسکے تحت اگر کوئی
گستاخی کرنے والے کے خلاف درخواست دیتا ہے اور عدالت میں وہ ثابت نہ ہو تو اس کو بھی سزائے موت ملے گی، دنیا میں اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ مدعی اور ملزم ایک ہی طرح کی سزا دی جائے ،یہ ختم نبوتﷺ کے قانون کے خلاف سازش ہے ،سینیٹ کو 295-C میں تبدیلی کرنے یا اس پر اثر انداز ہونیوالا کوئی بھی قانون پاس نہیں ہونا چاہیے ، ختم نبوتﷺ کے خلاف سازش ہمارے ایمان پر حملہ ہے، ختم نبوتﷺ کے قانون کو ختم کرنا بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے ،ہم اسطرح کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ختم نبوتﷺ قانون کی حفاظت اگر ہم نہ کر سکیں تو ہمیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ جیورسٹ کانفرنس کا مقصد حکومت کی آستینوں میں چھپے ہوئے ان لوگوں کی نشاندہی کرنا جو اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کو متنبہ کرنا ہے انسانی حقوق کی آڑ میں قادیانیوں کو مسلمان قراردینے کی سازشیں ہو رہی ہیں، کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کو مسلمان قرار دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر شعار اسلام کی توہین کی جا رہی ہے ،
مذاہب کے درمیان فساد کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کو روکنے کے لیے اس کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔معروف عالمی ماہر قانون احمر بلال صوفی نے کہا ہے کہ پہلی مرتبہ علمی اور تحقیقی حوالے سے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے، ہمیں علم اور قانون کی روشنی میں مقدس ہستیوں کی توہین کا حل کرنا چاہیے، علمی طور پر آگے بڑھنا سنت رسولﷺ ہے ،رسولﷺ نے بین الاقوامی معاہدے بھی کیے، جنگ کے اصول بھی متعین کیے ،رسولﷺ کی شان میں توہین پر ہمیں بھرپور جواب دینا چاہیے، ہمارے ہاں جذباتی احتجاج اور قراردادیں پاس کر دی جاتی ہیں مگر اسکا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ، پوری مسلم دنیا میں تحقیقی اور علمی حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے آرٹیکل 18-19اور20کو بنیا دبنا کر کہا جاتا ہے کہ یہ آزادی اظہار ہے کہ ہم جو بھی بات کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہتک عزت کا دعوٰی ایک عام شہری بھی کر سکتا ہے ،اسکی بھی توہین نہیں کی جا سکتی ،اسطرح کے قوانین مغرب کے ہر ملک میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ توہین رسالتﷺ پر ہم اپنے جذبات کو قابو نہیں رکھ سکتے، رسولﷺ سے ہم اپنی جان
سے زیادہ محبت کرتے ہیں، جب بھی کوئی توہین کرنے کی کوشش کرے گا اسکا بھرپور رد عمل آئے گا ۔انہوں نے تجویز دی کہ نوجوان وکیلوں کی ایک ٹیم بنائی جائے جو پوری دنیا کے توہین رسالت، ہتک عزت، توہین مذہب کا مطالعہ کریں اور ایک جامع رپورٹ بنائیں جس کو ہم یورپی یونین میں پیش کر سکیں، اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کمیٹی نے 6بھی کام کر تی ہے، ملیحہ لودھی کو اس کمیٹی کو یہ تجویز دینی چاہیے اور ایک باقاعدہ ڈرافٹ تیار کر کے اس کمیٹی میں پیش کیا جائے تا کہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے۔کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جیورسٹ کانفرنس میں شریک ماہرین قانون ، اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز حضرات ،وکلاءتنظیموں کے عہدیداروں اور سینئر وکلاءنے مسئلہ قادیانیت کے دستوری اور قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ۔ تحفظ ناموس رسالتﷺاور دنیا بھر کے مختلف مذاہب واقوام کی مقدس شخصیات کے حوالہ سے ملکی وبین الاقوامی قوانین کی روشنی میں اپنی قیمتی اراءکا اظہار کیا ۔شرکاءنے اس بات پر تشویش کیا کہ ایک عام انسان کی توہین کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ کے Declaration of Human Rights(المروف اقوام متحدہ کا چارٹربرائے حقوق انسانی)مورخہ 10دستمبر 1948کی قرارداد نمبر 217اور
اقوام متحدہ کا International Covenant on civil and political rightsاختیار کردہ 23مارچ 1996موجود ہیں لیکن دنیا بھر کے مختلف مذاہب اور قوموں کے مقدسات کی ناموس کے تحفظ یا توہین کو روکنے کیلئے کوئی بین الاقوامی معاہدہ یا قانون موجود نہیں ہے ۔ جیورسٹ کانفرنس نے مطالبہ کیا ہے کہ دستور کے آرٹیکل (3)260میں مسلمان اور غیر مسلم کی جوتعریف بیان کی گئی ہے وہ واضع اور مکمل ہے ۔ جس کی روشنی میں قادیانی گروپ ، لاہوری گروپ (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی اور نام سے پکارتے ہیں)غیر مسلم ہیں ۔ لہذااس دستوری دفعہ کی تشہیر کی جائے تاکہ قادیانیوں کے متعلق ابہام کا خاتمہ ہوسکے اوران کی دستوری حیثیت قوم اور دنیا کے سامنے مزید واضع ہوجائے ۔ دستورکی دفعہ 5کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو پاکستان کے ساتھ وفاداری اور پاکستان کے دستور اور قوانین کی اطاعت ضروری ہے ۔ نیز اس پر عملدرآمد کیلئے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298-Cموجود ہے ۔ لہذاقادیانی اپنی دستوری اور قانونی حیثیت یعنی غیر مسلم ہونے کو تسلیم کریں ۔ جب تک قادیانی یا لاہوری(یااحمدی)اپنی مذکورہ دستوری وقانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے ان کو اہم کلیدی عہدوں پالیسی سازاداروں کی رکنیت یا مشیر وغیرہ مقرر کرنا خلاف آئین و قانون ہے لہذا ایساکرنے سے گریز کیا
جائے ،قانون ناموس رسالتﷺ کی دفعہ 295-Cپاکستان کی پارلیمینٹ کا متفقہ طور پر منظور کردہ قانون ہے، اسے ختم کرنے کی سزا میں ردوبدل یا اسکے تفتیش کے طریقہ کار یا کسی اور قسم کی تبدیلی کی سازشوں کی مذمت کرتے ہیں اعلامیہ میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اس دفعہ میں کسی قسم کی تبدیلی یا اسے غیر مﺅچر بنانے کے حوالے سے کیے جانے والے ہر اقدام کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی ہر پاکستان مسلمان ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے مر مٹنے کو تیار ہے حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی شان اقدس کے حوالے سے مغربی دنیا میں آئے روز توہین آمیزی کا ارتکاب ہو رہا ہے حال ہی میں ہالینڈ کے سیاستدان گیرٹ ویلڈرز نے توہین رسالت کا ارتکاب کرتے ہوئے کارٹون مقابلہ جیسے ناپاک جسارت کا اعلان کیا پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس نفرت انگیز اور عالمی امن کو تہہ و بالا کرنے والی حرکت پر اپنے شدید غم وغصے کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں بعض اعتدال پسند مغربی سیاستدانوں اور دانشوروں نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے توہین آمیز پر مبنی مزکورہ مقابلہ ملتوی کرادیا لیکن گیر ٹ ویلڈرز نے اب بھی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی اور طریقہ اور شکل سے توہین رسالت کی ناپاک جسارت کرتے رہیں گے جو کہ اُمت رسولﷺ کے لیے ایک چیلنج ہے ۔ بین الاقوامی طور پر UN Declaration on Human rights اور UN convenanton Civil and Political Rightsمیں عام فرد کی عزت و احترام (dignity and honour )وغیرہ کی ضمانت تو دیتے ہیں لیکن دنیا بھر کے مذاہب اور قوموں کے مقدسات کی توہین روکنے کے لیے یہ دونوں بین الاقوامی دستاویزات خاموش ہیں جو کہ افسوسناک ہے ۔ اس لئے حکومت پاکستان بین الاقوامی سطح پر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی ﷺ اور دیگر مذاہت کے مقدسات کی توہین روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر معاہدہ کی تحریک کا آغاز کرے اور اسے اقوام متحدہ میں بطور قرارداد جمع کروانے کا اہتمام کیا جائے ۔