برلن: جرمنی میں ایک نیا قانون منظور کیا گیا ہے جس کے تحت سرکاری ملازم خواتین کو اوقاتِ ملازمت کے دوران اپنا چہرہ نقاب سے ڈھکنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
جرمنی کے ایوانِ زیریں (لوئر ہاؤس) سے منظوری کے بعد اب یہ قانون حتمی منظوری کےلیے ایوانِ بالا (اپر ہاؤس) میں پیش کیا جائے گا اور اگر اسے یہاں سے بھی منظوری مل گئی تو پھر یہ پورے جرمنی میں نافذالعمل ہوجائے گا۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل پہلے ہی یہ کہہ چکی تھیں کہ قانونی طور جہاں بھی ممکن ہوسکا، وہاں چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی لگائی جائے گی جبکہ جرمن وزیرِ داخلہ تھومس دے میزیئرے نے اس نئے قانون کے بارے میں کہا کہ اس سے واضح ہوجائے گا کہ جرمنی میں دوسری ثقافتوں کے ساتھ کس حد تک رواداری برتی جائے گی۔ اگرچہ جرمنی اور فرانس میں دائیں بازو کی جماعتیں عوامی مقامات پر نقاب کے علاوہ حجاب کرنے پر مکمل پابندی کا مطالبہ کرتی آرہی ہیں لیکن جرمن حکام پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ ایسی کوئی بھی مجوزہ پابندی جرمن آئین کے خلاف ہوگی اس لیے حجاب کرنے پر مکمل پابندی کی کوشش نہیں کی جائے گی۔
مشرقِ وسطیٰ میں مسلسل خانہ جنگی کے نتیجے میں پچھلے دو سال کے دوران لاکھوں پناہ گزین یورپی ممالک میں منتقل ہوچکے ہیں جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان افراد کو پناہ دینے والے یورپی ممالک میں جرمنی، فرانس، آسٹریا، بیلجیئم اور ترکی بھی شامل ہیں جہاں پہلے ہی کچھ خاص مقامات پر نقاب پر پابندی عائد ہے۔ ہالینڈ میں اس حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے جبکہ ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، اسپین اور روس میں بھی جداگانہ طور پر اس نوعیت کے قوانین پہلے سے موجود ہیں۔
خواتین کے حقوق کےلیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کا مؤقف اس بارے میں بالکل مختلف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جس طرح مذہبی شدت پسند مردوں کی جانب سے خواتین کو نقاب پہننے پر مجبور کرنا عورتوں کے حقوق کی پامالی ہے بالکل اسی طرح ریاستی سطح پر قانون سازی کے ذریعے انہیں نقاب نہ پہننے کا پابند کرنا بھی ریاست کی جانب سے خواتین کے حقوق پر حملہ تصور کیا جائے گا کیونکہ نقاب کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا کسی بھی خاتون کا ذاتی حق ہے اور جو خواتین اپنی مرضی سے پردہ (نقاب) کرنا چاہتی ہیں انہیں اس کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔