پاکستانی عوام سیاستدانوں کی نالائقیوں اور ناکامیوں کا رونا ہمیشہ روتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود پھر انہی کو منتخب کرتے ہیں۔ اور یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ پہلے تو محض نالائق اور ناکام سیاستدان دیکھنے کو ملتے تھے لیکن الیکشن 2018 میں نااہل سیاستدان بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ سابقہ وفاقی کابینہ پر نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں آدھی سے زیادہ کابینہ نااہل ہی ملے گی جس میں زیادہ تر نااہل قرار پائے جانے والے وزراء کی وجہِ نااہلی کرپشن، بدعنوانی، مقدس ایوان میں جھوٹ، اثاثوں کی تفصیلات چھپانا وغیرہ شامل ہیں۔
کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کرپشن (بدعنوانی) جرائم کی فہرست میں سب سے بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ بعض ممالک میں تو کرپشن کی سزا، سزائے موت رکھی گئی ہے جن میں چین جیسا ترقی یافتہ ملک بھی شامل ہے۔ چین میں گزشتہ 15 سال میں 13 لاکھ 40 ہزار افراد کرپشن کے الزامات میں مختلف سزائیں پاچکے ہیں جن میں نہ صرف عوام بلکہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز وزراء بھی شامل ہیں۔ پاکستان بھی اپنے دوست ملک کے نقش قدم پر چلنے کی ناکام کوشش کرچکا ہے۔ جولائی 2017 میں جمشید دستی کی جانب سے کرپشن پر سزائے موت بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو مختلف اطراف سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور حکمرانوں نے بل منظور نہ ہونے دیا۔ کرپشن کے گارڈ فادر کی موجودگی میں یہ بل پاس ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان سب باتوں سے کیا ہماری قوم آگاہ نہیں؟ کیا پاکستانی عوام مختلف ممالک میں کرپشن پر سزائے موت پانے والے وزراء سے بے خبر ہے؟
جی نہیں، نہ ہماری قوم بے خبر ہے اور نہ ہی ان سب باتوں سے لاعلم۔ ہماری قوم جانتی ہے کہ نواز شریف نے کرپشن کی، ہماری قوم یہ بھی جانتی ہے کہ عمران خان کاغذات نامزدگی فارم میں تبدیلی کی ترمیم میں برابر کے شریک ہیں۔ ہماری قوم یہ بھی جانتی ہے کہ ختمِ نبوتﷺ ترمیم میں پارلیمنٹ میں موجود علماء بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں اور ہماری ذہین قوم یہ بھی جانتی ہے کہ بھٹو کو دنیا سے گئے ہوئے 30 سال سے زائد عرصہ ہو گیا۔ ان سب معاملات سے آگہی کے باوجود بھی ووٹ انہی کو کیوں؟
اس بات کا جواب برطانوی اخبار ”دی گارڈین“ میں شائع ہونے والے مضمون میں کچھ یوں دیا گیا:
ڈین برنیٹ کے مطابق ’’سیاستدانوں کی کامیابی کا راز دراصل ان کی نالائقی میں ہی ہے۔‘‘
ڈین برنیٹ لکھتے ہیں کہ ماہرین نفسیات کے مطابق ’’اگر کوئی شخص عقل و فہم سے عاری ہے تو اس سے زیادہ پراعتماد شخص کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں اتنی عقل بھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی خامیوں کا اندازہ لگا سکے۔ جس شخص میں اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، وہ پراعتماد رویّے کا ہی مظاہرہ کرتا نظر آئے گا۔ اس نظریئے کے مطابق سیاستدانوں کی کم ذہانت ہی انہیں حد سے زیادہ پراعتماد اور بڑی بڑی باتیں کرنے والا بناتی ہے اور ان کی اسی خوبی پر بھروسہ کرتے ہوئے عوام باربار ان کی طرف مائل ہوتے ہیں۔‘‘
اگر ہم عوام الناس کی صورتحال پر غور کریں تو وہ ڈین برنیٹ کی تھیوری کے عین مطابق ہے۔ اگرچہ پہلے کی نسبت کچھ شعور اجاگر ہوا ہے لیکن اب بھی ہم ایک مستحکم اور مضبوط قوم بننے سے کوسوں میل دور ہیں۔ جب تک عوام اپنے حقوق پر سمجھوتہ کرنا نہیں چھوڑے گی تب تک نہ تو تبدیلی آسکتی ہے اور نہ ہی انقلاب۔ ہمیں اپنے ملک کےلیے درد دل رکھنا ہوگا۔ اگر خیبر پختونخوا مشکل میں ہے تو پنجاب اور سندھ کو ’’کے پی کے‘‘ کا درد محسوس ہونا چاہیے؛ اور اسی طرح سندھ یا پنجاب مشکل میں ہوں تو ’’کے پی کے‘‘ کو ہمدرد بننا ہوگا۔ ہمیں زبان، ذات اور رنگ کی پروا کیے بغیر ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دعوت انقلاب بھی اسی طریقے سے دی: (ترجمہ) ’’بیشک ﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں، اور جب ﷲ کسی قوم کے ساتھ (اس کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے) عذاب کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، اور نہ ہی ان کےلیے ﷲ کے مقابلے میں کوئی مددگار ہوتا ہے۔‘‘ (سورۃ الرعد، آیت 11)
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ پاکستانی قوم پر رحم فرمائے اور ہمارے اس وطن عزیز کو مخلص اور ایماندار قیادت نصیب فرمائے (آمین)۔