جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو تنہائی سے نکلنا ہے تو واضح فیصلے کرنا ہوں گے۔قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ امریکا کے لیے کام کرنے کے باوجود ہم قابل اعتبار نہیں، امریکا کو ہم پراعتماد نہیں ہے اسی وجہ سے آج افغانستان میں پاکستان نہیں بلکہ بھارت موجود ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ امریکا اپنے 33 ارب ڈالرکا حساب مانگ رہا ہے جب کہ ہم امریکی بداعتمادی کو سفارتی تنہائی کہتے ہیں، آخر کب تک بیانیہ دیتے رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی معاہدے کی پاسداری بھی نہیں کر سکتے جبکہ ایران مشکلات کوعبورکرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بارنہیں 10 بار بیانیہ دینے کو تیار ہیں لیکن ہمیں دوطرفہ اعتماد پیدا کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ ہم ریاست اور سیاسی جماعتوں کا احترام کرتے ہیں اور آج ایک بار پھر ریاست کو مقدس تسلیم کرتے ہیں لیکن اچھے بیانات کو پالیسی نہیں کہا جاتا، اب بھی پالیسی میں ابہام اور نرمی ہے، ہمیں کیا بیانیہ دیا جا رہا ہے اس پر بھی سوچنا ہو گا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ چین کی پاکستان کے حوالے سے اپنی ایک پالیسی ہے، چین کی حمایت ایک طرف، وہ پاکستان کے لیے گولی نہیں چلائے گا لیکن بتایا جائے کون سا ہمسایہ اس وقت ہمارے ساتھ ہے؟فاٹا اصلاحات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں سب نے ساتھ دیا لیکن فاٹا اصلاحات کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کوعوام کی تائید حاصل نہیں ہے۔فضل الرحمان نے مزید کہا کہ آئین کے خلاف جائیں گے تو خرابیاں پیدا ہوں گی لہذا ہمیں قومی یکجہتی سے ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات میں فاٹا عوام کی مرضی شامل ہونی چاہیے۔