برلن؍اسلام آباد(ایس ایم حسنین) پاکستان پیپلز پارٹی جرمنی کے سینئر ترین راہنما سید زاہد عباس شاہ نے پیغام حسینیت پر قد غن لگانے کی روائت کو یکسر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ کربلا سے، ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر سماج میں اصلاح یا انقلاب منظور نظر ہو تو سماج میں موجود ہر طبقہ سے مدد حاصل کرنی چاہئےاس کیلئے ہمیں اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ایمان داری سے اپنے مقصد کیلئے جدوجہد کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
خلوص نیت اور اتحاد کسی بھی سماجی و سیاسی جدوجہد اورمعاشرتی جنگ میں کامیابی کیلئے بہت ضروری ہے۔ امام علیہ السلام کے ساتھیوں میں جوان، بوڑھے، سیاہ سفید، غلام آزاد سبھی طرح کے لوگ موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی ظلم کے خلاف پر عزم جدوجہد اور مقصد کامیابی کی علامت ہیں۔ مگر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس جدوجہد کو یکسر فراموش کرنے میں اپنی پوری قوت صرف کر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم بطور مسلمان ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کرنے کے باوجود دنیا میں اپنے بنیادی حقوق کیلئے آج بھی دوسری قوموں کے محتاج ہیں ۔جب تک ہم ظلم کے خلاف جدوجہد اور حق پر ڈٹ جانے کیلئے امام حسین ؑ اور ان کے ساتھیوں کے اسوہ کامل کو ایک معیار نہیں بنا لیتے ہم کشمیر، روہنیگا، اور فلسطین میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ۔
کربلا، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ “حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے۔ ” جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہئے۔ امام حسین علیہ السلام اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق کا دفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے دشمن ہیں لیکن آفرین ہے آپ کے ساتھیوں پر کہ جنہوں نے امام کا یہ بات سننے کے بعد تلواریں اپنی گردنوں پر رکھ لیں اور کہا کہ اے آقا ہمیں مر جانا منظور ہے لیکن آپ کو تنہا دشمنوں کے نرغے میں چھوڑ جانا کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔
کربلا، تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و وعظ و نصیحت کا مرکز بھی ہے۔ تاریخ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا یہ پیغام پوشیدہ ہے۔ امام علیہ السلام نے شجاعت، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا، تاکہ یہ سماجی و جہادی تحریک، اپنے نتیجہ کو حاصل کر کے نجات بخش بن سکے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ صرف مسلمان ہی نہیں غیرمسلم بھی امام حسین علیہ السلام کی قربانی کو عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
۔