تحریر : ارم فاطمہ
کسی بھی ملک کی معاشرت اور اس کی تہذیب کی عکاسی وہاں رہنے والے افراد کی زندگیِ ، ان کے اطوار ، ان کی سوچ اور ان کے رویوں سے ہوتی ہے۔جب معاشرہ اور تہذیب رو بہ زوال ہو اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تو لازمی بات ہے اس معاشرے میں رہنے والے افراد کی زندگی اس سے لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے۔آج ہم بحثیت قوم عالمی افق پر کوئی ممتاز مقام حاصل کرنے میں ناکام ہیں تو اس کی وجہ معاشرے میں پھیلی کرپشن ، جرائم کی تعدادمیں اضافہ،بے روزگاری، تعلیمی انحطاط،اور گرتا ہوا معیار زندگی اور ہر وہ کام ہے جس میں جائز اور ناجائز طریقے سے حکومتی سطح پہ اور عوامی سطح پہ صرف اپنے مفادات کو ترجیح دی جائے۔جب ملک کا صاحب اقتدار طبقہ خود غرضانہ سوچ کا حامل ہو اور اپنے ہی لوگوں کا استحصال کرنا حق سمجھتا ہو وہاں ایک عام آدمی کا اس راہ چل نکلنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔اس طرح کے منفی سوچوں اور رویوں کا شکار سب سے پہلے نوجوان نسل ہی ہوتی ہے جن کی سوچ اور فکر ابھی تربیتی مراحل میں ہوتی ہے۔ہمارے ملک پاکستان کا ٨٤ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔مگر بد قسمتی سے ان کے روئے مثبت سوچ کے حامل نہیں۔
دین سے دوری ،منشیات کا استعمال، حالات کا جبر،صحیح سمت کا تعین نہ ہونا ،اپنے فرائض سے نظر چرانا جس کی بنا پر پریشانی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر ان سستے زہر میں زندگی تلاش کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔نوجوانوں میں گمراہی اور بگاڑ تب پیدا ہوتا ہے جب وہ بلوغت کی عمر میں ہوتے ہیں۔اس وقت ان پر جسمانی فکری اور عقلی حیثیت سیبڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتیں ہیں۔انسانی جسم نشوونما کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات ان کی سوچ اور فکر کی راہیں متعین کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں دوسری طرف جذبات کی شدت انہیں درست فیصلے کرنے نہیں دیتی یہی وہ موقع ہوتا ہے جب نوجوانوں کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس وقت انہیں ماں باپ بزرگوں اور اساتذہ کی توجہ نہ ملے تو ان کی شخصیت میں بگاڑ یقینی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری والدین کی ہے والدین کو علم نہیں !
١۔ان کے بچوں کی سوچ کس سمت جا رہی ہے ؟
٢۔ان کی ذہنی حالت کیا ہے ؟
٣۔ ان کے دوستوں کا حلقہ کیسا ہے کس قسم کا ہے؟
٤۔اپنے تعلیمی ادارے میں اپنے اساتذہ سے ان کا رویہ کیا ہے؟
٥۔سوشل میڈیا پر ان کا وقت کیسے گذرتا ہے ؟
اور سب سے بڑھ کر ان کے اپنے مستقبل کے حوالے سے کیا سوچ اورحدف کیا ہے؟
آجکل کے معاشرے کے بدلتے رجحانات کے باعث اکثر والدین اپنے بچوں کا مغرب زدہ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔موجودہ سوسائیٹیکا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغربی فکر وفلسفہ سے اتنی متاثر ہو چکی ہے کہ مادی دوڑ میں سب سے آگے بڑھ جانا چاہتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہماری اور ان کی مذہبی سماجی معاشرتی ضرورتیں اور اقدار اپنی اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں اس بے ترتیبی سے سب سے زیادہ ہمارا نوجوان طبقہ متاثر ہوا وہ نہ ادھر کے رہے ہیں نہ ادھر کے۔۔
نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس فراغت بہت ہے۔کرنے کو کچھ نہیں کوئی تعمیری سوچ نہیں۔ تعلیمی مواقع کم ہیں نوکریاں ملتی نہیں۔ان کی تعلیمی اور معاشی ناکامیاں انہیں مایوس اور نا امید کر دیتی ہیں۔وہ کم حوصلے سے بے عمل ہو جاتے ہیں خواہشات اور شیطانی وسوسوں میں پڑ جاتے ہیں۔یوں منفی سوچوں کے باعث اپنی ذمداریوں اور اسلام سے دور ہو جاتے ہیں۔اس کا حل یہ ہے کہ ان کو ان کی ذہنی صلاحیتوں کی بنا پر عملی طور پر مصروف رکھا جائے جس سے نہ صرف ان کے سوچ میں تبدیلی آئے بلکہ وہ معاشرے کے فعال رکن بن سکیں۔ان کا دوسرا سب سے بڑا پرابلم جو انہیں ان کی ذمہ داریوں سے برگشتہ کر کے منفی ایکٹیویٹیز میں مصروف رکھ ر رہا ہے وہ ہے جنریشن گیپ۔۔ اس کی وجہ ماں باپ اساتذہ اور بزرگوں کی بے جا تنقید ہے۔ان کا دوست نہ ہونا۔ ان کے بڑے انہیں اپنی سوچ اور اپنے زمانے کے حوالے سے دیکھتے ہیں پرکھتے ہیں انہیں اپنی بات کہنے اور منوانے کا موقعہ نہیں دیا جاتا جس سے ان میں فرسٹریشن بڑھتی ہے اور وہ اپنے رشتوں سے دور ہوکر خود ہی اچھے برے فیصلے کرتے ہیں اور ساری عمر بھٹکتے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ ایک دوسرے کی بات تحمل اور کشادہ دلی سے سنی جائے۔ نوجوانوں کو اپنی بات کہنے کا پورا موقعہ دیا جائے تا کہ وہ اپنا نقطہ نظر بیان کر سکیں مگر ہوتا یہ ہے کہ انہیں غیر ذمہدار سمجھا جاتا ہے ان پر اعتبار اور بھروسہ نہیں کیا جاتا جس سے کہ نوجوانوں کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے نہیں آتیں۔اس لئے بزرگوں کو چاہیے ان دوریوں کو مٹائیں اور ان کی اصلاح کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کریں۔موجودہ سیاسی مسلکی اور لسانی فرقہ بندیوں اور اختلافات نے نوجوان نسل کو ایسے لوگوں کے ساتھ میل جول پر مجبور کر دیا ہے جو ان کی سوچ اور رویوں کو بدل رہے ہیں۔کہا جاتا ہے !برے دوست کی مثال لوہار کے بھٹے کی طرح ہے یاتو وہ تیرے کپڑے جلائے گی یا پھر تو اس کے دھوئیں کو چکھے گا عقل ودانش اور نیکی اور بھلائی کے سرچشمہ لوگوں کی صحبت اختیار کرنا نہ صرف اپ کی سوچ کو بہتر زاویہ زندگی دیتا ہے بلکہ ایک اچھا انسان بننے میں بھی مدد دیتا ہے اس لئے نوجوانوں کو چاہیے بد اخلاق اور بد کردار لوگوں سے دوری اختیار کریں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو ملین سے زائد افراد انٹرنیٹ کی سہولت رکھتے ہیں جن میں کثیر تعداد نوجوان نسل کی ہے جو زیادہ تر سوشل نیٹ ورک سائیٹس پر اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہیں۔دنیا میں تقریبا چورانوے فیصد نوجوان فیس بک کا استعمال محض اپنے اردگرد کے لوگوں کے بارے میں کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں کس کے ساتھ ہیں ؟ کیا کر رہے ہیں ؟ جاننے میں لگا دیتے ہیں۔سوشل میڈیا ایک ایسا نشہ بن چکا ہے جس کے نہ ملنے پر آج کا نوجوان ڈپریشن اور پریشانی کا شکار ہو کر اپنی صحت تعلیم اپنے فرائض اور یہاں تک کہ اپنوں سے کٹ کر زندگی گذار رہا ہے۔
یہ نشہ اسے تنہائی کا عادی بنا رہا ہے اور تنہائی اسے مختلف برائیوں کی طرف راغب کر رہی ہے۔یہ سوشک سائیٹس نوجوانوں کے اخلاق اور کردار کو تباہ کر رہے ہیں۔اخلاق سے گرے پاپ اپس اور اشتہارات معاشرے میں بے راہروی کو فروغ دے رہے ہیں۔منفی کتابوں کا مطالعہ اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال وہ اپنی ذات میں اپنے اپ کو مکمل سمجھتے ہیں یون اپنی سادگی اور کمعلمی کی وجہ سے گراہیوں میں پڑ جاتے ہیں اور اپنا بہت سا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں۔ان تمام مسائل کو ختم کرنے کے لئے نوجوانوں کو کاونسلنگ کی ضرورت ہے اور یہ کام والدین سے زیادہ بہتر کوئی اور نہیں کر سکتا۔اسلام کے بارے میں بد گمانیاں اور دور جدید میں مغربی فکر وفلسفہ کے تسلظ کی وجہ سے نوجوان طبقہ بہت متاثر ہے۔
مغربی فلسفے کے مطابق !اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کی آزادی سلب کر لیتا ہے ترقی کے دروازے بند کر دیتا ہے اور انسان کو دقیانوسیت کی طرف دھکیل دیتا ہےصلاحیتوں پر بندشیں عائد کر دیتا ہے یہ وہ خدشات اور اعتراضات ہیں جو دور جدید کے نوجوانوں کے قلب وذہن پر طاری ہیں جس کی وجہ سے وہ مذہب سے دور اور شکوک و شبہات کا شکار ہے۔اس حوالے سے ضروری ہے کہ ان کے عقائد اور تصورات کو بالکل واضح کرنے میں مدد کی جائے۔اسلام کے حقائق ان کے سامنے پیڑ کیے جائیں۔ان کی باتیں تحمل اور برد باری سے سنیں اور آج کے نوجوان کو اپنے ساتھ لے کر چلیں تاکہ ان کے سامنے ایک راستہ اور ایک منزل ہو۔
ہمیں چاہیے کہ ان مسائل کے حل کے لیے حکومتی اداروں کی طرف دیکھنا بند کریں کیونکہ آجکل کے مسائل کے انبار میں حکومت اور ا س کے اداروں کی چشم پوشی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ہمیں اپنے گلشن کے پھولوں کی نرمی اور شگفتگی برقرار رکھنے کے کے لیے خود تازہ ہوا اور بہتر ماحول کا بندوبست کرنا ہوگا کیونکہ ان نوجوانوں سے ہی ہماری کل کی پہچان اور مستقبل وابستہ ہے۔
تحریر : ارم فاطمہ