انسانی معاشرے میں خرابی اور بدامنی کاپودا خود نہیں اگتا،بلکہ یہ بعض انسانوںکی اپنی غلطیوں کی وجہ سے وجود میںآتا ہے اور پھر نہ مانوں کی ضد او ر متواتر رٹ پریہ بڑھ کر پورا درخت بن جاتا ہے،جس کی جڑیں انسانی معاشرے میں پھیل جاتی ہیں اور یوں قانون قدرت اور اصول فطرت کہ” جیسا بو گے ویسا ہی کاٹو گے” کے مطابق اس دُنیا کا امن تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عالم انسانیت کوان مختصر وقفوں میں سکون وطمانیت تب نصیب رہا، جب انسان پیغمبران ِخدا کی راہ پر چلے۔یہ کوئی ایسا فلسفہ یا منطق نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آسکے،بلکہ تجزیہ اورمشاہدہ اس بات کاسب سے بڑا وکیل ہے کہ آسمانی ہدایتوں اور ربانی تعلیمات کے علاوہ کوئی اور چیز ایسی نہیں جو انسانوں کو صحیح منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہو اور ان تعلیمات پرگامزن رہنے ہی میں انسانیت کو امن وسکون میسر آسکتا ہے۔
اس لیے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی دنیاکے لیے امن وسکون کی عمارت کو بلا تفریق نسل ومذہب انہی ابدی،الہامی اور یونیورسل حقوق و فرائض اورمطالبات و حقائق کی بنیاد پر اُٹھانے میں مضمر ہے، جنہیںتمام بڑے الہامی مذاہب نے تسلیم کیا ہے۔جس میں عدل و انصاف،سچ اور حق اصول اولین قرار پاتے ہیں۔
الحمد للہ، ہم سب مسلمان ہیں۔ ایک اللہ ایک رسول اور ایک کتاب کے ماننے والے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ تک سب نبیوں پر، سب آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، قرآن پاک اور نبی اکرم ﷺ پرایمان رکھنا ہمارے عقیدے کا بنیادی تقاضا ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں مذہبی رواداری پر واضح طور پر زور دیا گیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:’’ اگر آپ کارب چاہتا کہ زمین میں سب مومن ہی ہوں تو بے شک سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ تو پھر کیا آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے کہ وہ مومن ہو جائیں‘‘۔(سورۂ یونس )اس آیت کی تفسیر میں علمائے کرام نے بہت اچھی اور مثبت باتیں بتائی ہیں، اسلام کی تبلیغی حکمت عملی کو پوری طرح واضح کیا ہے کہ زبردستی کسی پر اپنا عقیدہ مسلط کرنا اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ اور ممنوع ہے۔قرآنی تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کی سیرت پاک نے بنیادی اور عملی طور پریہ بات طے کردی ہے کہ کسی پر بھی کوئی نظریہ و مذہب قبول یا ناقبول کرنے کے بارے میں کسی طرح کا جبر، زور اور زبردستی نہ کی جائے۔ اگر عالم اسلام قرآن پاک کے رواداری کے پیغام اور نبی اکرم ﷺکے مبارک عمل کی روشنی میں میسر آنے والی روشن و منور راہ پر صحیح طریقے سے چلتا تو آج یقینی طور پر ہم اقوامِ عالم کی فکری،سائنسی،اقتصادی اورسیاسی میدان میں قیادت کا فریضہ انجام دے رہے ہوتے۔
یہ مذہبی رواداری ہی تھی جس کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا پرچم بلند ہوا۔ اس تاریخی حقیقت کو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اپنی بلند پایہ تحقیقی کتاب میں بیان کیا ہے کہ اس علاقے میں اسلام تلوارکے زور سے نہیں،بلکہ صوفیائے کرام اور اولیاء کی رواداری پر مبنی تعلیمات اور عام انسانوں سے محبت و شفقت کی بدولت پھیلا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ بر صغیر میں اسلام کی آمد کے وقت یہاں مذہبی مباحثوں کا دوردورہ تھا۔ برہمنیت یعنی ہندو مت، بدھ مت اور جین مت وغیرہ کافی عرصے سے باہم دست و گریبان تھے۔ہندو مت کے ماننے والے بے جا سختی یہاں تک کہ لوگوں کو قتل بھی کر دیتے تھے۔ ایسے میںاسلام کی رواداری پر مبنی تعلیمات اور صوفیائے کرام کی پیار بھری عملی باتوں نے اسلام کو پھیلنے اور پھولنے کا موقع فراہم کیا۔یہ حقیقت ہے کہ دُنیا میں اسلام جہاں کہیں بھی پھیلا، اپنی رواداری اور اعلیٰ انسانی اقدار کا عملی داعی ہونے کے سبب پھیلا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اور ان کے مختلف مسالک اور فرقے اسلامی تعلیمات کے سرچشمے قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ سے روشنی حاصل کرکے مذہبی رواداری اورباہمی اتفاق و اتحاد کے پیغام کو عام کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ اس سلسلے میں تجویز ہے کہ ہمیں اسلام کی مذہبی رواداری پر مبنی تعلیمات کو فروغ دینے کی طرف توجہ کرنی چاہیے، کیوںکہ یہ اس وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ تاکہ موجودہ دُنیا کو حقیقی معنوں میں،برابری کی بنیاد پر عدل و انصاف،معاشی خوش حالی اورامن وسکون کی نعمت حاصل ہو سکے۔عالم گیر بے چینی کا خاتمہ ہوسکے۔
بد قسمتی سے اس وقت عالمی دہشت گردی نے دُنیا سے سکون چھین لیا ہے اوراس سے بھی بڑھ کر ستم ظریفی یہ کہ اسلام کو دہشت گردی، فرقہ واریت سے منسوب کیا جاتا ہے،دُنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی فتنہ و فساد یا دہشت گردی ہو، اسلام اور مسلمانوں کو اس کا موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام حقیقی معنوں میں امن عالم کا پرچار کرتا ہے۔ غیراسلامی مذاہب سے برابر ی کے سلوک کا عملی داعی ہے۔ اسلام کے پُرامن بقائے باہمی کے اصول کی تاریخ میں بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے ، نبی اکرم ﷺ کا آخری خطبہ ،عالم انسانیت کی فلاح کا عالمی منشور ہے۔مدینہ منورہ میںکیا گیا معاہدہ ،میثاق ِ مدینہ اور نجران کے عیسائیوں سے کیا گیا معاہدہ اس کا عملی ثبوت ہیں کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو انسانیت کی بہتری کے لیے باہمی طور پر مل جل کر کام کرنا چاہیے۔
معاشرے میں امن و سلامتی،باہمی پیار و محبت اور مذہبی رواداری کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات کا جاننا اور اسے عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ امّت ِ مسلمہ کا صحیح اور درست تصور بحال کرتے ہوئے اسلام کو فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق کہ ” اسلام ہی بر تر ہے اور اس سے برتر کوئی اور (مذہب ،دین، نظریہ) نہیں ہے” کا عملی اظہار کرنا ہوگا۔