واشنگٹن/اسلام آباد(ایس ایم حسنین) انیلہ کا آبائی ملک پاکستان ہے لیکن وہ امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کا یہاں قیام بھی اب ایک مجبوری بن گیا ہے۔ اس مجبوری کی پہلی وجہ ان کے شوہر تھے جو ان پر دن رات تشدد کیا کرتے تھے۔
امریکی خبررساں ادارے سے گفتگو کے دوان انیلا کا کہنا تھا کہ “میں خود تو مار پیٹ برداشت کرتی رہی مگر جب شوہر نے بیٹیوں پربھی ہاتھ اٹھانا شروع کیا تو انہیں شوہر کے خلاف کھڑا ہونا پڑا۔” انیلہ ورجینیا میں اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہائش پذیر اکیلی ماں ہیں۔ ان کا خاندان جب امریکہ آیا تو وہ صرف نو برس کی تھیں۔ ان کے والد لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے اسی لیے ہائی اسکول کے بعد انیلہ کو گھر بٹھا دیا گیا۔ پھر جلد ہی ان کی شادی ان کے ایک کزن سے کرا دی گئی جو امریکہ آنا چاہتے تھے۔ انیلہ ان کے لیے گرین کارڈ حاصل کرنے کا ذریعہ بنیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی ان پر ہاتھ اٹھانا شروع کردیا تھا۔ انیلہ نے امرکی خبررساں ادارے کو مزید بتایا کہ وہ خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتی رہیں لیکن تشدد کسی بھی دن نہیں رکا۔
انیلہ کے بقول “ان کے شوہر بھی لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف تھے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ ہماری بچیاں یہاں تعلیم حاصل نہیں کریں گی۔ وہ گھر میں کتابیں پڑھنے کے بھی بہت خلاف تھے جب کہ مجھے اپنے والدین یا بہن بھائیوں سے بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔” انیلہ کا کہنا ہے کہ یہ ظلم اور زیادتی 14 برس تک جاری رہی۔ پھر ایک دن وہ کہیں چلے گئے اور کبھی واپس نہیں آئے۔
انیلہ کے بقول گھر والوں نے مجھے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان واپس جانے پر زور دیا لیکن میں نے انکار کر دیا۔ انیلہ کہتی ہیں کہ “مجھے اپنی بیٹیوں کے لیے کھڑا ہونا پڑا۔ عورت ہونے پر مجھے یہاں کسی نے سہارا نہیں دیا تو بھلا پاکستان میں میرا سہارا کون بنتا۔”
مجبوراً انیلہ نے ‘شیلٹر ہوم’ میں پناہ لی اور اپنی بیٹیوں کا داخلہ اسکول میں کروا دیا۔ اس وقت وہ ایک نرسری میں بچوں کو اردو سکھاتی ہیں۔ انہوں نے خود بھی بچوں کی بنیادی تعلیم سے متعلق کورس شروع کیا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیائی خواتین کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘سکھی’ کے مطابق امریکہ میں مقیم ہر پانچ جنوبی ایشیائی خواتین میں سے دو گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ بیشتر ماہرین کے مطابق گھریلو تشدد کے معاملے میں امریکہ میں جنوبی ایشیائی خواتین کے لیے مدد حاصل کرنا خاص طور پر بہت مشکل ہے۔ تنظیم کے مطابق بہت سی خواتین کے پاس اسپورٹ سسٹم نہیں ہے اور وہ اپنے خاندان سے بھی دور ہیں لہذٰا اس لیے بھی اپنے شریک حیات کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے کے باوجود پولیس سے رابطہ نہیں کر پاتیں۔
ایک بنگلہ دیشی خاتون رضیہ نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ جس وقت ان کی شادی ہوئی تھی ان کی عمر 36 سال تھی۔ وہ شادی کے فوری بعد نیویارک آ گئیں۔ یہ ان کا بیرونِ ملک پہلا سفر تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ دو سال تک ان کے شوہر نے انہیں ذہنی اور مالی استحصال کا شکار بنائے رکھا اور ایک بچے کی پیدائش کے بعد مجھے چھوڑ دینے کی دھمکی دی۔ بات بڑھی تو انہوں نے پولیس بلالی۔ وہ پہلے بھی کئی بار ایسا کر چکے تھے۔ اُن کے بقول تنگ آ کر “میں ایک شیلٹر یا پناہ گاہ میں آگئی اور تب سے اب تک یہیں ہوں۔ اس کے باوجود میں ابھی بھی بہت مشکل وقت سے گزر رہی ہوں۔ میرے پاس کوئی مناسب نوکری نہیں، میں زیادہ تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکی۔” رضیہ کہتی ہیں کہ میری دو سالہ بیٹی کئی دنوں سے بیمار ہے تو میں کام پر نہیں جا سکی۔ کوئی جمع پونجی بھی نہیں۔ مجھے نہیں معلوم آگے کس طرح گزارا ہوگا اور ایسا کب تک چلے گا۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران دنیا بھر میں گھریلو تشدد کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے بیشتر کیسز میں انگریزی بولنے میں دقت اور ثقافتی و معاشرتی رکاوٹوں کے سبب صورت حال مزید بدتر ہے۔
ایسی ہی ایک تنظیم ‘نو مور ٹیرز’ کی سربراہ سومی علی کہتی ہیں کہ بہت سی متاثرہ خواتین کو یہ تک ادراک نہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ نسل در نسل چلے آنے والے گھریلو تشدد کو وہ عام بات سمجھتی ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں مگر ماہرین امریکی حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے خصوصی قانوں سازی کی جائے تاکہ انہیں مالی اور جسمانی استحصال سے محفوظ بنایا جاسکے۔